سماجیات کے فلاسفر کہتے ہیں کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے
وہ اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا، مگر میرا تجزیہ یہ کہتا ہے کہ یہ صرف کہنے
کی ہی بات ہے سچ تو یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ زندگی نہیں
گزار سکتا۔
انسانی ذات سے جڑے کسی بھی تعلق کو دیکھ لیں اس میں وفاداری اور دیانت کی
ایک معیاد ہے کوئی بھی تعلق پائیدار نہیں۔
بہن بھائی تب تک ایک دوسرے کے اپنے ہیں جب تک وہ زندگی کی مشکلات و الجھنوں
کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جہاں شعور آنے لگا ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں پھر
ایک بستر میں اکٹھے سونے والے بھائی بہن ایک گھر میں بھی اکٹھے رہنا پسند
نہیں کرتے۔
والدین کی ضرورت تب تک ہے جب تک انسان خود کما کر کھا نہ سکے۔ اس کے بعد
والدین ایک مجبوری لگتے ہیں۔ حالانکہ بعض والدین بھی اولاد کی پیدائش اور
پرورش اسی لیے کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں وہ ان کا سہارا بنیں، اور جب
ایک سہارا کمزور ہو جائے تو پھر ان کی امیدوں کا مرکز دوسرا سہارا یعنی
معاشی لحاظ سے مضبوط دوسرا بیٹا یا بیٹی بن جاتے ہیں۔ مگر والدین میں یہ
صفت رب تعالیٰ نے رکھ دی ہے کہ وہ اپنی اولاد سے منحرف نہیں ہو سکتے۔ جذبات
کی یہ گرمی قدرت اور فطرت نے ان کے خون میں بخش دی ہے۔ اسلیے اولاد اگر
بوڑھے ماں باپ کو چھوڑ بھی دے تب بھی وہ والدین کے دلوں سے محو نہیں ہوتے۔
اسی طرح جب خدا تعالیٰ نے دنیا کو خلق کیا، حیوانات، نباتات، چرند، پرند
پیدا کیے اور اس کے بعد اپنی شبیہہ پہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق
فرمائی۔ تو آدم علیہ السلام کے سکون کے لیے اللہ رب العزت نے اس کی ہم جنس
اور ہم عمر عورت پیدا کی، اور انھیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم قرار
دیا۔ دنیا کا کوئی خطہ ہو، مذہب ہو، کیسا بھی انسان ہو، اس کے اندر مخالف
جنس کی کشش فطری ہے۔ معاشرہ بےراہروی کی جانب بھٹک نہ جائے اس لیے مرد اور
عورت کو پاکیزہ تعلق میں جوڑ دیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے لیے ضروری دو
لوگ جب نکاح کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو تعلق کی مضبوطی کے لیے اولاد کی
ضرورت ہوتی ہے ورنہ مخالف جنس کی کشش اور دو لوگوں کی جنسی ضرورت سے وابستہ
رشتہ گیلی مٹی کی طرح ڈھے جاتا ہے۔ اور اولاد سے محروم دو لوگ جو دو جسم
ایک جان کے رشتے سے وابستہ ہوتے ہیں اولاد کی محرومی ان کو الگ کر دیتی ہے،
حالانکہ ان دو لوگوں کے لیے اولاد کی شرط حق تعالیٰ کی طرف سے قائم نہیں کی
گئی بلکہ یہ شرط تو ہماری اپنی معاشرتی اختراع ہے۔
مذکورہ بالا تعلقات جو انسانی زندگی کی ضرورت سمجھے جاتے ہیں انسان ان
رشتوں سے بھی بےزار ہو جاتا ہے۔
ایک تعلق جس کا ذکر ابھی باقی ہے وہ ہے دوستی کا،مگر آزما لیجیے دوستی کا
رشتہ بھی تب تک ہے جب تک آپ شعور کی دنیا سے بے بہرہ ہیں۔ سکول کے بچوں کی
دوستی اور کاروباری ادارے میں موجود لوگوں کی دوستی میں زمین آسمان کا فرق
ہے، اور دوستی کا رشتہ اس وقت تک ضروری ہے جب تک مرد یا عورت ازدواجی بندھن
میں جکڑے نہیں جاتے اس کے بعد دوستی فراموش اور دوست غیر ضروری۔۔۔ ازدواجی
تعلق کے بعد پھر وہی سماجی شرائط، زمہ داریاں اور وقت کی گردش۔۔۔
والدین، بہن بھائی، شریکِ حیات، دوست یہ کسی بھی انسان کے قریبی تعلقات
ہیں۔ ان کے علاؤہ تو جو بھی ہے فقط دنیا داری ہے، غرض ہے یا مجبوری ہے، اس
کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ جن قریبی رشتوں کا ذکر کیا گیا وہ بھی صرف محدود
وقت کی ضرورتیں ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر رشتہ اور ہر انسان اپنی
اہمیت کھو دیتا ہے۔ یہ ہی اصولِ فطرت ہے اور یہ ہی تقاضاء وقت۔
اس فطری اصول پہ عمل پیرا زندگی قدرت کا ایک اور نکتہ بھی سمجھاتی ہے کہ
کیوں انسان ماں کے پیٹ سے اکیلا پیدا ہوتا ہے اور اپنے مقرر وقت پہ اکیلا
اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، نہ تو اس کی خوشی کے لیے کوئی جیتا ہے اور نہ
اس کی کمی کے دکھ میں کوئی مرتا ہے۔ وہ اپنے لیے جیتا ہے اور اپنے ہی دکھ،
تکلیف اور بیماریوں سمیت دنیا سے چلا جاتا ہے۔
|