|
|
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا آئے روز ایسی خبروں کی زینت
بن رہے ہیں جن میں کسی بڑی عمر کے شخص کی شادی اپنے سے کچھ کم عمر کی خاتون
کے حوالے سے بتا جارہا ہوتا ہے- ان خبروں اور تصاویر کے شائع ہونے کے ساتھ
ہی سوشل میڈیا صارفین انہیں تنقید کا نشانہ بنانے لگتے ہیں اور ان پر عجیب
عجیب تبصرے آنے لگتے ہیں جنہیں اپنا حق سمجھا جاتا ہے- واضح رہے کہ ہم یہاں
ان ویڈیوز کی بات نہیں کر رہے جن میں 20 سالہ دوشیزہ کی 60 سالہ مرد سے
ہوتی ہے اور اسے محبت کی شادی قرار دیا جارہا ہوتا ہے- ہم صرف اس شادی کی
بات کر رہے جن میں مرد اور عورت دونوں کی ہی عمر رسیدہ ہوچکے ہوتے ہیں یا
پھر خاتون کی عمر مرد سے چند سال ہی کم ہوتی ہے لیکن پھر بھی انہیں تنقید
کا نشانہ بنایا جارہا ہوتا ہے- |
|
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشرہ اس رشتے کے اصل پہلو
کی جانب نظر نہیں کرتا یا پھر شاید کرنا ہی نہیں چاہتا اور صرف طنز اور
تنقید کے تیر برسانا شروع کردیتا ہے- |
|
ایسی ہی ایک تصویر کافی دنوں سے گردش کر رہی
تھی، جسے ہماری ویب کے رائٹر ذوالقرنین ہندل نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے
شئیر کر کے اس کے ساتھ معاشرے کے لیے ایک پیغام بھی درج کیا جو ہماری
آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے- |
|
کالم نگار نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ “سوشل
میڈیا دانشوروں نے اس پر خوب ہاتھ صاف کئے۔ عمر پر تنقید کے ساتھ کسی نے
بزرگ کے پیسوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کسی نے نوکری کو اور کسی نے سفید
داڑھی اور پنشن کو وغیرہ وغیرہ“۔ |
|
|
|
اپنی پوسٹ میں ذوالقرنین نے گزارش کی کہ “کسی بھی جائز
رشتے کی اہمیت کو سمجھے بغیر تنقید کا نشانہ مت بنایا کریں۔ آپ کے نزدیک اس
عمر رسیدہ شخص اور اس سے عمر میں چند برس کم عورت نے بڑھاپے کی راتیں
گزارنے کے لئے شادی کی ہے۔ ہرگز نہیں!“ |
|
مزید لکھتے ہیں کہ “ بعض اوقات انسان مجبوری کے اس درجے
پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کا اپنی زندگی پر کنٹرول نہیں رہتا۔ بعض رشتے سر
چھپانے کے لئے چھت اور کھانے اور دیکھ بھال کے حصول کے لئے بھی باندھے جاتے
ہیں۔ اور بڑھاپا تو عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں انسان کو اپنوں کے ساتھ
کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ |
|
ممکن ہے یہ دونوں زندگی کے ایسے موڑ پر ہوں جہاں دونوں
کو ایک دوسرے کے ساتھ کی اشد ضرورت ہو۔ بعض چیزوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے
کی بجائے اس میں سے مثبت پہلو کو بھی اجاگر کر دیا کریں اس سے معاشرے میں
بہتری پیدا ہوگی۔ |
|
ورنہ ممکن ہے کہ ایک روز آپ خود اس موڑ پر
آجائیں اور معاشرے کے طعنوں کی زد میں زندگی کے آخری لمحات بے بسی اور
بیزارگی میں بسر کریں۔ خدارا جئیں اور جینے دیں۔ منفی پراپیگنڈہ کی بجائے
مثبت سوچ کو پروان چڑھائیں“۔ |