ایک لڑکی کے ہمراہ سیڑھیاں اترتے گفتگو شروع ہوئی۔ میں نے
چند سوالات کیے جو میرے نزدیک بہت عام اور آسان تھے مگر جو جوابات اس لڑکی
نے مجھے دیے وہ غیر متوقع تھے۔ مجھے اپنا جواب جاننے کے لیے سوال کو دو
مختلف طریقوں سے دہرانا پڑا تاکہ وہ میرا نقطہ نظر جان سکے اور پھر مجھے
جواب دے۔ اس نے جواب دے دیا اور بات ختم ہو گئی۔
ایسا ایک اور واقعہ تب پیش آیا جب کلاس کا انتظار کرنے کے لیے ہم باہر
کاریڈور میں آ کھڑے ہوئے۔ اندر کے شور سے بچنے کے لیے ہم نے ایک قدر پر
سکون جگہ تلاش کی اور گفتگو کرنے لگے۔ ساتھ ایک اور فیلو بھی آ کھڑے ہوئے
اور گفتگو کا رخ میری جانب مڑ گیا۔ میں نے لقمہ دیا تو ان کے جواب سے میں
ایک لمحے کو حیران ہوئی کیوں کہ میں وہ نہیں پوچھ رہی تھی جو وہ بتا رہے
تھے۔ میں نے اپنی بات کو مختلف الفاظ کے ذریعے ان تک پہنچایا۔ اب کی بار
میرا نقطہ نظر سمجھ کر وہ ہلکا سا ہنسے اور درست جواب دے کر بات ختم کر دی۔
مگر وہ ایک لمحہ جس نے مجھے حیران کیا تھا، اسی ایک لمحے میں مجھے ڈیبرا
ٹینن اور ان کی کتاب یاد آئی۔
ڈیبرا ٹینن نے ایک کتاب یو جسٹ ڈونٹ انڈرسٹینڈ کے نام سے تحریر کی ہے جس
میں انہوں نے نہایت خوبصورتی سے مختلف گفتگوؤں اور ان کے مطالب کا نقشہ
کھینچا ہے۔ کتاب کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ چوں کہ انسانوں کے سوچنے کے انداز
میں خاصہ فرق پایا جاتا ہے اور ہر انسان ایک ہی طرز سے نہیں سوچتا، اس لیے
ایک ہی بات کو سمجھنے کا انداز ہر فرد کا مختلف ہو سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ
اگر کسی کو کوئی بات بتائی جائے یا کوئی سوال کیا جائے تو آپ کو متوقع جواب
نہ ملے کیوں کہ ہر شخص کا بات کو سمجھنے اور اسے دماغ میں پراسیس کرنے کا
انداز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ دو لوگ ایک ہی
طرز سے ایک بات کو سوچیں یا اس بات کا ایک ہی مطلب لیں۔ ایک ہی کتاب کئی
لوگ پڑھتے ہیں مگر مختلف انداز سے اس کا اثر قبول کرتے ہیں۔ ایک ہی لیکچر
کلاس میں موجود تمام تر طالب علموں کو دیا جاتا ہے مگر سب اس لیکچر کو ایک
طریقے سے نہیں سمجھتے اور مختلف نکات پہ غور کرتے ہیں۔ اس سارے عمل کے
پیچھے انسان کے اندر پنپنے والی سوچ اور اس کا طرز فکر کار فرما ہوتا ہے۔
تاہم ڈیبرا ٹینن کہتی ہیں کہ اس سلسلے میں فرد کی جنس بھی اہم کردار ادا
کرتی ہے۔ ٹینن کے مطابق مرد زیادہ تر اسٹیٹس اور خودمختاری کو پسند کرتے
ہیں اسی لیے ان کی گفتگو اور اعمال میں یہ عنصر واضح ہوتا ہے اور خواتین
کنیکشنز اور تعلقات کو اہم جانتی ہیں اسی لیے ان کی گفتگو اور اعمال میں
یہی چیز نمایاں ہوتی ہے۔ اس کی مثال وہ کچھ یوں دیتی ہیں کہ اگر آپ کسی سفر
کے دوران کسی نئی جگہ داخل ہوں تو خاتون کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طور راستہ
پوچھ لیا جائے تاکہ منزل بھی مل جائے اور نئی جگہ پر کسی سے اچھا تعلق اور
کنیکشن بھی بن جائے۔ دوسری جانب مرد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ جیسے بھی صحیح،
راستہ خود ہی تلاش کر لے کیوں کہ کسی سے پوچھنا اس کے اسٹیٹس اور احساسِ
خودمختاری پہ گراں گزرتا ہے۔ ٹینن کے اس دعوے کی کوئی سائنسی وضاحت موجود
نہیں ہے، یہ کسی حد تک درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ لیکن یہ بات کہ
لوگ اپنے نقطہ نظر کے مطابق سوچتے اور جواب دیتے ہیں، کافی حد تک درست ہے
اور اگر اس چھوٹی سی بات کو سمجھ لیا جائے تو اکثر مسئلے بہت آسانی اور
سہولت سے حل کیے جا سکتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ دونوں واقعات پہ جب میں نے از خود غور کیا تو یہ معلوم ہوا
کہ دونوں صورتوں میں میری باتوں میں وہ مطلب موجود تھا جو سامنے والے نے
اخذ کیا۔ نہ وہ غلط تھے، نہ میں غلط تھی۔ محض ہمارے طرز فکر، نقطہ نظر اور
بات کو پراسیس کرنے کے انداز میں فرق تھا اور یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
آسان اور سادہ طریقہ یہی تھا کہ سوال دہرا لیا جائے اور متوقع جواب حاصل کر
لیا جائے۔ لیکن اکثر اوقات معاملہ الٹ ہوتا ہے۔ اگر ہماری بات سامنے والے
کو سمجھ نہ آئے تو الجھن اور غصہ غالب آنے لگتا ہے۔ سوال دہرانے کے بعد اگر
کوئی نہ سمجھے تو شدید تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اور صورتِ حال اس حد تک بگڑ
جاتی ہے کہ لوگوں کے آپس کے تعلقات متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اس منفی اثر سے
گفتگو کو بچانے کا بہترین حل یہ ہے کہ اول تو یہ کہ سامنے والے کی نفسیات
کو سمجھ کر سوال کیا جائے یا بات کہی جائے۔ ایسے الفاظ کہنے سے بچا جائے جو
سننے والے کو سمجھ نہ آئیں۔ دوم یہ کہ بولنے والا ایک مختصر سا تجزیہ کر
سکتا ہے کہ جو بات وہ کہنے جا رہا ہے، اس کے کون سے مطالب نکل سکتے ہیں۔ سو
وہ ایسے الفاظ کا چناؤ کرے جو بات کا صحیح مطلب سننے والے کو سمجھا سکیں۔
یہ مختصر تجزیہ کرنے میں بمشکل چند سیکنڈ لگتے ہیں لیکن یہ انسان کو بہت سے
تنازعات سے بچا لیتے ہیں۔ مزید یہ کہ گفتگو کرنے والے اور سننے والے دونوں
کو چاہیے کہ تحمل سے ایک دوسرے سے بات کریں۔ اگر سامنے والے کو بات سمجھ
نہیں آئی تو نرم تاثرات کے ساتھ دوبارہ کہہ دیں۔ اور سننے والا بھی بولنے
والے کے ساتھ ربط قائم کرنے کی کوشش کرے اور تحمل سے دوبارہ سن لے۔ نیز اس
بات پر بھی غور کرے کہ کہنے والے کی بات کے اور کون سے مطالب ہو سکتے ہیں۔
یوں گفتگو منفی اثر سے بچ جائے گی اور بہت سے تعلقات تنازعات اور غلط فہمی
کی وجہ سے خراب ہونے سے محفوظ رہیں گے۔
زندگی مختصر ہے، اسے تحمل اور برداشت سے گزاریں۔ لوگوں کے نقطہ نظر کو عزت
دینا سیکھیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں خود کو الجھانے کے بجائے اپنی گفتگو
کو با مقصد اور با معنی بنانے پر توجہ دیں۔ ایک ہی بات کئی مطالب دیتی ہے،
آپ بس سمجھتے نہیں!
|