''حرمت تکفیر مسلم''
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
''حرمت تکفیر مسلم'' قرآن وسنت اور عبارات فقہاء کی روشنی میں تکفیر کے اصولوں کا بیان مصنف :۔پروفیسرڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی) کی ایک بہترین تحقیقی کاوش
|
|
|
حرمت تکفیر مسلم |
|
''حرمت تکفیر مسلم'' قرآن وسنت اور عبارات فقہاء کی روشنی میں تکفیر کے اصولوں کا بیان مصنف :۔پروفیسرڈاکٹر عمیر محمود صدیقی (شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی) کی ایک بہترین تحقیقی کاوش ----------------------------- عصر حاضر فتن ،دجل ،غفلت ،ذہنی ارتداد اور نظریاتی تخریب کار ی کا دور ہے،ان فتنوں میں ایک بہت بڑا فتنہ، فتنۂ تکفیر ہے۔دشمنان اسلا م مسلمانوں کے درمیان پھوٹنے والے تمام فروعی اور اصولی اختلافا ت کے تفصیلی مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلمانوں کی قوت کو باہم ٹکراؤ کے ذریعے ختم کرنے کا طریقہ ان کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کو بڑھا کر تکفیری سوچ اور فکر کو ہوا دینا ہے، کیونکہ کسی مسلمان کی تکفیر کے بعد اسے مرتد قرار دے کر واجب القتل قرار دے دینا ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے مسلمان انتہائی اخلاص اور مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ ایک دوسرے کو انفرادی ،قومی اور بین الاقوامی سطح پر ختم کرنے پرا ٓمادہ ہو جائیں گے ۔جہاں امت مسلمہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، ان میں سب سے مہلک اور خطرناک دو غیر متعدل رویے ہیں:(۱)مسلمانوں کی تکفیرکرنا۔(۲)کافروں کو مسلمان کہتے ہوئےکفرواسلام کے فرق کومٹادینا۔ اول الذکر گروہ کی جڑیں خوارج سے ملتی ہیں، جنہوں نے تا ریخ اسلام میں سب سے پہلے امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحاب رسول ﷺ کی تکفیر کی اور ان کے قتل کو جائز سمجھا ۔ ان کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ ٔاسلام سے خارج قرار پا تا ہے ۔ مرتد قرار دینے کے ساتھ قتل کرنے کا جواز اس قدر سنگین عمل ہے کہ اس کے ساتھ ـ’’شرعی اجازت ـ اور مذہبی ذمہ داری‘‘ کا عنصر جب شامل ہوجائے تو مذاکرات کے تمام دروازے بندہو جاتے ہیں،جب کہ دوسر ا جدت پسند گروہ کفر و اسلام کے فرق کو مٹاتے ہوئے یہودو نصاریٰ کو بھی باوجود رسالت مآب ْﷺ کی نبوت کے انکار کے جنت میں داخل کرنے پر مصر ہے ۔یہ دونوں غیر معتدل رویے مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔عمومی طور پر خوارج کی فکر کو مذہبی حلقوں میں عام کیا جاتا ہے تا کہ ان کے مذہبی جذبات کو مسلمانوں کے ہی قتل عام کے جواز کا سبب بنا یا جا ئے اوردوسری طرف غیر مذہبی طبقو ں میں اسلام سے متعلق نفرت اور خدا بیزاری پیدا کی جاتی ہے۔گو یا اس وقت مسلما ن دو متشدد گروہوں کے فکری انتشار کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔پہلا طبقہ اُن مذہبی متشدد گروہوں کا ہے جو قرآن و سنت کے علم سے نا واقفیت کی بنیاد پر دین کی ایسی تعبیر و تشریح کرتے ہیں جس کی وجہ سے دین پر عمل دور جدید میں نا ممکن ہو جاتا ہے ۔دوسرا طبقہ ان لبرل فاشسٹ کا ہے جو اسلام کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے کے تحت یا اپنی بد طینت کی وجہ سے اپنی زبان اور قلم کا زور صرف کرتے ہیں اور میڈیا کے ذریعے بے حیائی اور ٓاوارگی کو عام کرتے ہیں،جس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے اٹھا یا جانے والا ہر قدم ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی خلیج کو مزید بڑھا دیتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے اس فکری یلغار کو اس طرح بیان فرمایا کہ اس امت میں ہر دور میں اصحاب عدل وارثین علم قرار پائیں گے ۔ وہ انتحال المبطلین ،تحریف الغالین اور تاویل الجاھلین یعنی با طل پرستوں کے حملوں ،متشدد گروہوں کی تحریف اور جاہلوں کی تاویلات کی نفی کریں گے۔ تاریخ کا مطالعہ یہ بتا تا ہے کہ علمائے امت نے ہر دور میں خوارج ہوں یا مرجئہ ،معتزلہ ہوں یا باطنیہ ایسے رویوں کی تردید کی ہے ۔ دور حاضر میں مسئلہ تکفیر کے حوالے سے لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں، ہر مناظرے ،مباحثے اور اختلاف رائے کا اختتام تکفیر پر ہوتا ہے۔اس کی واضح مثال مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ اور علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو کافروگمراہ قرار دیئے جانے کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے ۔اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے گروہوں کی مذمت کریں ۔مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور بٹتے چلے جارہے ہیں اور ہر فرقے کا یہ دعوی ہے کہ وہی ماانا علیہ و اصحابی پر قائم ہے۔ہر گروہ نے اپنی اپنی رسی کو الگ تھاما ہوا ہے اور یہ زور اس قدر زیادہ ہے کہ اس خول سے جو شخص باہر نکلنا چاہے تو اسے دائرۂ اسلام سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔بعض حضرات اس مشغلۂ تکفیر میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اپنے فتوے کے مطابق کافر و مشرک ہونے والے کو مرتد قرار دے کر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات اس کا دائرہ اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور افراد کافر قرار دے دیے جاتے ہیں۔ اپنے اخترا ع کردہ اصولوں کی بنیاد پرزور و شور سے اپنے لوگوں کو دائرہ اسلام سے نکالنے کی مہم جاری ہے جس کے نتیجے میں شاید آج کوئی بھی ایسا نہ ہو جو ان کی زد سے باہر ہو۔ مختار مسعود ’’آواز ِدوست‘‘ میں کہتے ہیں:''قدرت کا نظام اصولوں کے تابع ہے،بڑے آدمیوں کی پیدائش کے بھی تو کچھ اصول ہوں گے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے جاتے ہیں۔'' ہم شاید اسی سزا میں مبتلا ہیں۔غالباًاس سزا کی بڑی وجہ ان کا باہم ایک دوسرے کی رائے کو تحمل و تامل سے نہ سننا اور اپنی بات کو ’’سپر قطعی‘‘سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی ’’متعدی تکفیر‘‘کا بازار گرم کیے رکھنا ہے۔کسی کی رائے سے ادب کے ساتھ اختلاف کرنا اہل علم کا حق اور حق کو قبول کرنا ادب حق ہے۔تاہم علمی مسائل میں ایک دوسرے کی تکفیر کرناکسی طور پر درست نہیں۔ علما کو چاہیے کہ تکفیرمسلم کے بجائے تکثیر مسلم پر زور دیں ،کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی تحریر و تقریر سے اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے۔ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق قرب قیامت میں ایک ایسا وقت آئے گا کہ لا یبقی من الاسلام الا اسمہ(اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا)۔ہم یہی مشاہد ہ عصر حاضرمیں کرتے ہیں کہ مختلف گروہوں کے ناموں کی ابتدا یاانتہا میں اسلام کا لفظ شامل ہوتا ہے، لیکن ان کی دعوت کا محور یا مرکز اسلام نہیں بلکہ خاص نظریات، رسومات یا شخصیات کی تشہیر ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دعوت دی ہے کہ وہ شرک کے مقابلے میں اہل کتاب کو لا ا لہ الا اللّٰہ کی طرف دعوت دیں اور اس کلمے پر ان کے ساتھ اتفاق کریں جو ان میں اور ہم میں برابر ہے۔اس وقت اہل اسلام کو چاہیے کہ جب کفر اسلام کے مقابلے میں ایک ملت ہے اور مسلمانوں کی جغرافیائی اور نظریاتی حدود پر حملے ہورہے ہیں تو وہ حرم کی پاسبانی اور اپنی بقا کے لیے اپنی اپنی رسیوں کو چھوڑ کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے لا الہ الااللہ محمد رسول اﷲ ﷺ پرجمع ہو جائیں۔ معاشرے میں بے شمارافراد ایسے ہیں جو ان مسائل سے یکسر غافل و جاہل ہیں جن کی وجہ سے مسلمان دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔اہل اسلام کی توجہ ان مسائل کی طرف مبذول کرانے کے لیے ہر دور میں علمائے عظام نے کئی ایک کتب و رسائل تصنیف فرمائے ہیں تاکہ خواص و عوام ان سے استفادہ کرتے ہوئے خود کو ان عقائد،افکار اور اعمال سے محفوظ رکھ سکیں جو ایمان پر منفی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ کئی قارئین نے بجائے اس کے کہ ان کتب کے ذریعے سے عوام و خواص کو کفر سے بچانے کی کوشش کرتے، اپنے مناظروں ،تحریروں اورمخالفتوں کے ذریعے سے تکثیر اہل اسلام کے بجائے تکفیر اہل اسلام پر زیادہ زور صرف کیا، جس کے نتیجےمیں شاید ہی ہمارے دور میں کوئی ایسی نامورعلمی شخصیت ہو جواپنے مسلمان بھائی کے فتویٔ تکفیر کی زد سے محفوظ ہو۔ ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی کی کتاب ''حرمت تکفیر مسلم '' قرآن و سنت اور عبارات فقہاء کی روشنی میں تکفیر کے انہی اصولوں کے بیان پر مشتمل ہے ۔ پندرہ ابواب اور 700 صفحات پر محیط اس کتاب کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین قبلہ ایاز لکھتے ہیں''اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اس موضوع پر تحقیقی مواد پیش کرکے معاشرے سے اس ناسور کا خاتمہ کردیا جائے۔۔۔۔۔ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے اس اہم اور حساس موضوع پر قلم اٹھایا جس کا تذکرہ پیغام پاکستان میں بھی موجود ہے۔'' حرمت تکفیر مسلم میں پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب نے قدیم وجدید تقریباً دو سو مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے تکفیر مسلم کی حساسیت اور اس کی شرعی حیثیت کو قرآن و سنت اور فقہاء کرام کے مرتب کردہ اصولوں کی روشنی میں کھول کر رکھ دی ہے۔اور معاشرے میں موجود اِس خطرناک رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے۔یقیناً اس حوالے یہ وہ مفصل کام ہے جو ایک مفتی کو فتویٰ تکفیر جاری کرتے وقت لازمی اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔یہ کتاب اہل علم ،وکلاء عدلیہ اور مدارس اسلامیہ کے منتظمین، مدرسین اور طلباء کے لیے ایک ریفرنس بک کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ ''دور حاضر میں مسئلہ تکفیر کے حوالے سے لوگ افراط و تفریط میں مبتلا ہیں۔ہر مناظرے،مباحثے،مکالمے اور اختلاف رائے کا اختتام تکفیر پر ہوتا ہے ۔۔۔۔اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے گروہوں کی مذمت کریں۔یہ کتاب اس لیے لکھی گئی کہ مسلمانوں میں ایسے غیر معتدل رویوں کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔تمام اہل علم حضرات کے لیے ان مسائل کا دقت نظر کے ساتھ جاننا انتہائی ضروری ہے تاکہ منبرومحراب سے لوگ دور ہونے کے بجائے قریب ہوسکیں۔'' ہماری نظر میں ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی نے ایک ایسے موضوع پر کام کیا ہے جو وقت کی اہم ضرورت ہے ۔حرمت تکفیر مسلم میں شامل ممتاز اہل علم ودانش جناب پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز،پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی ،پروفیسر ڈاکٹر عارف خان ساقی،علامہ مفتی سید شاہ حسین گردیزی، علامہ مفتی محمد خان قادری،بریگیڈئیر اختر نواز جنجوعہ،صاحبزادہ سلطان احمد علی،ڈاکٹر حبیب الرحمن،سراج الدین امجد،پروفیسر ڈاکٹر عابدہ صاحبہ اور ڈاکٹر عمران خان کی گرانقدر آراء کتاب کی اہمیت و افادیت میں اور بھی اضافہ کرتی ہیں۔ ہم نوجوان محقق پروفیسر ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب( شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی) کو اس کاوش پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔اللہ کریم اُن کے علم و فضل، مرتبہ و مقام میں مزید اضافہ فرمائے ۔انہیں دین و دنیا کی آسانیاں و فراوانیاں نصیب فرمائے اور ہمیشہ اپنی پناہ و امان میں رکھے ۔آمین بحرمتہ سیدالمرسلیٰن ﷺ عمدہ سرورق سے مزین اور اعلیٰ پیپر پر یہ کتاب ''ورلڈ ویو پبلیشرز لاہور'' سے شائع ہوئی ہے۔جس کے لیے ادارے کے روح رواں جناب مقصود احمد کامران صاحب ستائش کے مستحق ہیں۔ حرمت تکفیر مسلم ورلڈ ویو پبلیشرز دوکان نمبر 42،ہادیہ حلیمہ پلازہ ،نزد بھاٹی چوک ،غزنی اسٹریٹ اردو بازار لاہور سے یا جناب مقصود احمد کامران فون نمبر 0333-3585426 اور 042-37236426پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔ محمداحمد ترازی
|