اللہ کی خوشبو اور ہمارے چاچا جی

یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ ہمہ وقت محسوس یا غیر محسوس طریقے سے اپنے پیدا کرنے والے کی تلاش میں رہتا ہے۔اپنے ذہن کی تسکین کے لئے،اپنی بندگی کے اظہار کے لئے،اپنے دکھ سکھ کی سانجھ کے لئے،ساری دنیا سے چھپا کے اپنے دکھوں تکلیفوں اور مصیبتوں پہ آنسو بہانے کے لئے اسے ایک کندھا درکار ہوتا ہے۔کوئی ایسا کندھا جو اسی کے موقف کو صحیح جانے۔جو اسی کی حوصلہ افزائی کرے اور جو اس کی آہ و بکا پہ خندہ زن نہ ہو بلکہ اس کے آنسو پونچھے۔انسان اسی نعمت غیر مترقبہ کے حصول کے لئے ساری عمر بتا دیتا ہے۔اس نعمت کو وہ کہیں سورج میں کہیں ستاروںمیں کبھی درختوں تو کبھی کہساروں میں تلاش کرتا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہ مخلوق کو مختلف حالتوں میں ملتا رہا ہے۔انسان کے لئے ملنا وہی ہوتا ہے جہاں اس کی تسلی ہو جائے،وہ انسان کو تسلی اور دلاسے کی اس نعمت سے ہر دور میں نوازتا رہا ہے۔ اسے آج تک سوائے ایک ہستی کے کسی نے نہیں دیکھا۔وہ خود کہتا ہے کہ تم میرا گمان بھی نہیں کر سکتے ۔میں تمہاری سوچ کے کسی بھی دائرے میں محیط نہیں۔تمہارا علم کبھی میری خبر نہیں لا سکتا۔

اس کا دیدار تو کیا انسان تو اس کی ایک تجلی بھی برداشت نہیں کر سکتا۔نبی کبھی طالب دیدار ہو جائے تو منع کر دیا جاتا ہے۔اپنے لاڈ میں ضد کر بیٹھے تو ضد مان تو لی جاتی ہے مگر ساتھ ہی بتا دیا جاتا ہے کہ موسٰی یہ ممکنات میں سے نہیں۔نبی کو ہوش کھونا پڑ جاتے ہیں۔ساتھ گئے بشر جل کے خاک ہو جاتے ہیں لیکن اس کی ایک تجلی کی تاب بھی نہیں لا سکتے۔لیکن اس کے باوجود وہ کہتا ہے کہ میں تمہاری شہہ رگ سے بھی قریب ہوں۔وہ جو اس کا سب سے زیادہ قریب سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیداہ اسے جاننے والا ہے اس کی گواہی ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے گویا اپنے رب کو پہچان لیا۔اس کا مطلب یہی ہوا کہ اس کے دیدار کی نعمت تو سوائے میرے آقا کریم ﷺ کے انبیاءعلیہم السلام کے حصے میں بھی نہیں آئی تو عام انسان بھلا کہاں اس نعمت سے بہرہ مند ہو گا۔کہتے ہیں کہ عبادت سے جنت ملتی ہے اور خدمت سے جنت والا۔خدمت کرنے والے اپنے نفس کو پہچان لیتے ہیں۔اور جو اپنے نفس کو پہچان لے وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے۔یہی لوگ ان انسانوں کو جو دیوانہ وار اپنا سیس نوانے کو ،اپنے دکھوں کا رونا رونے کو، اپنی تخلیق کا شکر ادا کرنے کواسے تلاش کرتے پھرتے ہیں،اس کی پہچان کرا کے ان کو تسلی دلاتے ہیں۔وہ جو اسے پہچان لیتے ہیںپھر کہاں اس سے دور ہوتے ہیں۔

سوائے ان کے جنہیں وہ خود اپنی محفل سے نکال دے۔جنہیں وہ خود راندہ درگاہ قرار دے دے۔جنہیں اس کی پہچان ہو جائے وہ تو باغی ہو کے بھی شرک کا نہیں سوچتے۔لعنت کا طوق گلے میں ڈالے پھرتے ہیں لیکن اس کی وحدانیت سے منکر نہیں ہوتے۔اس لئے کہ جسے ایک بار پہچان ہو جائے اس کے سارے شکوک مٹ جاتے ہیں۔جو ایک بار اسے جان لیتا ہے پھر کہاں اس کے در سے ہٹتا ہے۔اس کی طرح اس کی محبت بھی لا ثانی و لا فانی ہے۔جو اسے تھوڑا سا بھی جان لے اس کی ذات و صفات میں بھلا کسی کو کیا اور کیسے شریک ٹھہرائے گا۔شرک وہی کر سکتے ہیں جو اسے جانتے نہیں۔جسے سورج کی روشنی کا اندازہ ہوتا ہے وہ اگر کسی چراغ کو سورج کے مترادف قرار دے تو اسے خبطی اور دیوانہ ہی کہا جائے گا۔شرک کا گناہ انجان ہی سے سرزد ہوتا ہے۔ اسے جاننے والا باقی سب کچھ کر سکتا ہے۔وہ متکبر ہو سکتا ہے۔وہ حکم ماننے سے انکار کر سکتا ہے لیکن اس کی ذات و صفات میں مخلوق کو شریک نہیں ٹھہرا سکتا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ سب اختیارات سب کمالات اسی کے ہیں ،اس کے ذاتی۔ہاں اس نے اپنے خزانوں کے منہ اپنے اختیارات کے پروانے اپنی پہچان والوں کو عطا کر رکھے ہیں۔وہ اس کی مرضی و منشاءسے اس کی تلاش میں سرگرداں لوگوں میں ان نعمتوں کو تقسیم کرتے رہتے ہیں۔اگر اختیار نہ ہوتا تو مدینے کا وہ غریب ساری کی ساری کجھوریں اپنے ہی گھر کیسے لے جاتاحالانکہ شریعت کے مطابق تو اسے غلام آزاد کرنا تھا۔

اللہ کریم کی باقی مخلوق کی طرح ہمیں بھی اپنا رونا رونے کو (کہ اس کے لئے اس کی تلاش تو نصیب والوں ہی کے حصے میں آتی ہے) اسکی تلاش رہتی ہے۔اس کے لئے ہم نے بھی بہت کوچوں کی خاک چھانی۔اس کی طلب میں ،اس کی تلاش میں کہاں کہاں دھکے نہیں کھائے۔کس کس در پہ دستک نہیں دی۔عمر کے آخری حصے میں آکے ہمیں ایک ایسا شخص ملا جس سے ہمیں اس کی خوشبو آتی ہے۔جس کا کندھا ہر رونے والے کے لئے حاضر ہے۔جو ہر دکھی دل کے درد کو اپنا درد جانتا ہے۔مخلوق سے وہ شخص یوں پیار کرتا ہے جیسے یہی اس کی تخلیق کا بنیادی مقصد ہو۔اسے ہر ایک کی فکر ہوتی ہے۔اسے ہر ایک کا خیال رہتا ہے۔اسے ہر ایک سے پیار ہے۔مجال ہے کبھی کوئی حرف شکایت زبان پہ آئے۔اس کے پاس ہر مسئلے کا حل اور ہر بیماری کی دوا ہے۔شاید اس نے بھی اپنے نفس کو پہچان لیا ہے شاید اسے بھی مالک کی پہچان عطا ہو گئی ہے۔شاید اللہ کریم نے اسے بھی اپنے خزانوں کی چابیاں عطا کر دی ہیں۔یہ علیحدہ بات کہ وہ ان خزانوں سے اپنے لئے کچھ نہیں چاہتا۔اللہ کی مخلوق سے اسے عشق ہے اور آسانیاں بانٹنا اور لوگوں کی مشکلات کم کرنا اسے اچھا لگتا ہے۔وہ جہاں جائے اس کی کاشت کردہ کسی نہ کسی نیکی کا کوئی شگوفہ اپنی خوشبو سے ماحول کو معطر کرنے لگتا ہے۔

ایبٹ آباد کے لوگ انہیں سردار صاحب یا سردار حبیب کے نان سے جانتے ہیں۔ہم انہیں پیار سے چاچا جی کہتے ہیں ۔چاچا جی سے ہمیں اپنے مالک کی خوشبو آتی ہے۔ہمیں لگتا ہے کہ انہیں مالک کی پہچان عطا ہو گئی ہے۔مخلوق اسی لئے ان کی ترجیع اول ہو گئی ہے۔وہ مخلوق کو اللہ کا عیال قرار دیتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ مخلوق کو راضی کر لیا جائے تو اللہ کی رضا کا در خود بخود وا ہونے لگتا ہے۔خیر یہ تو وہ جانیں یا وہ جانے ۔ہمیں تو بہرحال ان سے مل کے سوہنے کی خوشبو آتی ہے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291770 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More