سیانے کہتے ہیں کہ کسی کا چہرہ
اس کی خوبیوں اور خامیوں کا عکاس نہیں ہوتا بلکہ اس کا کردار ، برتاﺅ اور
طرز عمل ہی اس کی اصل شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے میں ایسے
بہت سے افراد ہیں جن کا ظاہر ان کے باطن سے بالکل الٹا ہوتا ہے۔بعض لوگوں
کے تو بہت سے چہرے ہوتے ہیں اور وہ مختلف حالات اور ماحول میں کئی مصلحتوں
کے پیش نظر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نظر آتے ہیں۔ ان کے چہروں سے کبھی
شیطانیت اور حیوانیت ٹپک رہی ہوتی ہے تو کبھی وہ معصومیت اورانسانیت کا
مجسمہ بنے نظر آتے ہیں۔بہرحال حقیقی اور سچے چہرے وہی ہوتے ہیں جن کا طرز
عمل اور برتاﺅ ہر صورتحال یعنی مصائب والام اور خوشحالی اور آسانی میں ایک
ہی ہو۔
اس تمہید کا مقصد قارئین کو ایک ایسے نوجوان سے متعارف کروانا ہے جو ایک
ملزم کی حیثیت سے جیل میں قید ہے مگر اس کے باطن میں ایک اور ہی شخص چھپا
ہوا ہے۔ جس نے ایک تاریک اور جرم و سزا کے تعفن سے اٹے پر گھٹن ماحول میں
علم کی وہ شمع روشن کی جو خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے جو
ایسے ماحول میں رہ کر اب صرف چلتی پھرتی لاشوں کا روپ دھار چکے ہیں۔اس شمع
کے علمبردار نوجوان کا نام عبدالرشید ہے ۔جسے 2008ءمیں محترمہ بے نظیر
بھٹوکے قتل کی شبہ میں گرفتار کرکے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں رکھا گیا۔اس کی
تفتیش کون سے مرحلے پر ہے اور اس کے مقدمے کی کیا حالت ہے۔ وہ قصور وار ہے
یا نہیں۔ اس کی تفصیل پھر کسی اور دن کے لئے چھوڑ رکھتے ہیں۔ آج اس نوجوان
کے اس پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتا جس کی بدولت آج کل پھر وہ اخبارات کی زینت
بنا ہواہے۔ مگر ایک ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ہونہار طالب علم کی طور
پر جس نے راولپنڈی بورڈ میں میٹرک کے امتحانات میں 1050 میں سے 848 نمبر لے
کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔اس طرح اس ’ملزم‘ کا وہ چہرہ سامنے آیا ہے جس سے
شاید پہلے کوئی واقف نہ تھا۔ جیل حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملزم کی
درخواست پر اسے جیل کے اندر ہی استاد اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کا
انتظام کیا تھا۔ رشید احمد نے میٹرک کے امتحانات کی تیاری جیل میں ہی کی
اور راولپنڈی تعلیمی بورڈ نے بھی جیل کے اندر ہی ایک امتحانی مرکز قائم کیا
تھا جس میں ان سمیت پچاس کے قریب قیدیوں نے امتحانات دیے تھے۔
عبدالرشید کی جیل کے ماحول میں میٹرک کے امتحان کی تیاری اور پھر راولپنڈی
بورڈ میں نمایاں کامیابی اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش
کی جائے تو جیل خانے ریفارمز سینٹر میں تبدیل ہو کر معاشرے میں مثبت تبدیلی
کا باعث بن سکتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں جیلوں کی حالت انتہائی نہ گفتہ بہ ہے۔
جیلوں میں مقررہ گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ تشدد،
بدسلوکی، نشہ اور بہت سی برائیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ جہاں اگر کوئی بے
گناہ ، بے قصور اور معصوم شخص بھی آجائے تو ایک دو سال میں چھٹا ہوا مدمعاش
بن جاتا ہے۔ ہماری ہاں جیلوں کا ماحول اس قدر خوفناک اور خطرناک ہے کہ اس
کی بھٹی میں سے صرف خطرناک دہشت گرد اور چور ڈکیت ہی بن کر نکلتے ہیں۔ لیکن
عبدالرشید کی شاندار کامیابی اور دیگر قیدیوں کا امتحانات میں شرکت کرنا
ایک مثبت تبدیلی کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اب جیل انتظامیہ قیدیوں کو پریشان
رکھنے کی بجائے ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں پھر سے معاشرے کا ذمہ دار
شہری بنانے کی طرف بھی توجہ دے رہی ہے۔ یعنی جیل خانے عقوبت خانوں کی بجائے
اب ریفارم سنٹر بننے لگے ہیں۔
اس ہونہار نوجوان کی ذہانت سے ایک اور سوال بھی جنم لیتا ہے کہ دہشت گرد
کتنے ظالم ہیں جو عبدالرشید جیسے ذہین نوجوان جن میں ہمارا روشن مستقبل
بننے کی ساری خوبیاں ہیں کے چہروں پر دہشت گردہونے کا لیبل لگا رہے ہیں۔ یہ
معصوم نوجوانوں کو ورغلا اور بہلا پھسلا کر ان سے گھناﺅنی وراداتیں کرواتے
ہیں۔ بہرحال جیل میں قید افراد اپنے چہروں پر لگے جرائم کے داغ علم کی
روشنی سے دھوئے جاسکتے ہیں۔ جیلوں میں مقید قیدی بھی انسان ہیں اور کسی
غلطی، مجبوری، جرم اور گناہ کی وجہ سے جیلوں میں سزا کاٹنے کیلئے بند کئے
جاتے ہیں۔ جیلوں کو عقوبت خانوں کے بجائے اصلاح گھروں میں تبدیل کرنے کیلئے
جامع حکمت عملی پر پیش رفت جاری رکھی جائے اور دینی تعلیم، اصلاحی پروگرام،
حفظ قرآن و دیگر باتوں کو ہر قیدی کیلئے لازم قرار دیا جائے اور یہ قیدی
رہائی پا کرمعاشرے کا ایک ذمہ داری اور کارآمد شہری بننے کے ساتھ ساتھ ملک
و قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے توہمارے معاشرے کا چہرہ بدل
سکتا ہے۔ |