عیدالفطر: ملت اسلامیہ کی فطری اجتماعیت کے اظہار کا دن

خوشی و مسرت کا منانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے، اس کی تشفی کے مختلف ذرایع ہیں۔ لیکن اسلام کا تصور مسرت ایسا منفرد اور آفاقی ہے جس میں پوری انسانیت کے لیے خوشی کا پیغام ہے، اسلام انفرادیت سے اجتماعیت کی طرف لاتا ہے، اس کے نزدیک ایک فرد کی خوشی سے انسانیت کو فائدہ حاصل نہیں بلکہ پوری قوم کی مسرت انسانی مفاد میں کارگر ہے، بایں وجہ اسلام میں ہر فرد کی خوشی گویا پوری امت مسلمہ کی خوشی ہے، عیدالفطر کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ اسی لیے امت مسلمہ ایک جسم ہے، جس کے ایک حصے پر ہونے والا اثر پوری قوم پر مرتب ہوتا ہے، ایک خطے کے مسلمان نڈھال ہیں، ظلم کا شکار ہیں تو گویا پوری امت مسلمہ گھائل ہے، یہی اجتماعیت کا تصور مسلم قوم کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔

غربت و افلاس دنیا کا ایک مسئلہ ہے، اسلام نے اس پر کنٹرول کیا ہے، کیا ہم نے کبھی عید کے فلسفے پر غور کیا؟ یہ سچ ہے کہ عموماً مسلمان اسلامی احکام کی پاس داری نہیں کرتے، اگر اسلامی احکام پر کما حقہ عمل کر لیا جائے تو دنیا سے غربت کا مسئلہ حل ہو جائے گا، کم از کم مسلم امہ عالم اسلام میں مفلوک الحال نہ ہو گی۔ عیدالفطر کا پس منظر کیا ہے؟ غربا کو ان کا حق دیا جاتا ہے، جسے صدقہ فطر بھی کہا جاتا ہے، اس میں ایک فلسفہ ہے، وہ یہ کہ اسلام کی خوشی غربا کو شریک کر کے متصور ہے، پہلے غریبوں کی مدد کرو، انھیں ان کا حق دو، اور یہ تعاون ایسا نہیں کہ اسے احسان کے زمرے میں رکھا جائے بلکہ اس کے ذریعے ہماری ذمہ داری پوری ہوتی ہے، اور ہمارا مال خالص ہو جاتا ہے، گویا صدقہ فطر ہو یا زکوٰة اس سے مال کی پاکیزگی مقصود ہوتی ہے، اس سے مال میں برکت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رضا و خوش نودی کا حصول ہوتا ہے، اطاعت شعار بندے کے لیے اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ معبود حقیقی خوش ہو جائے۔

دنیا کے لیے ایک مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ایک طبقہ جو تنگ نظر ہے، اسلام کی مقبولیت سے بوکھلایا ہوا ہے، وہ اسے اسلام سے جوڑتا ہے، حالاں کہ ایک عالمی ادارہ دی رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر نے اپنی سروے رپورٹ The 500 Most Influential Muslims 2009 in the world میں تسلیم کیا ہے کہ بنام مسلم 3% افراد ہی دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں، 97% مسلمان دہشت گردی کے مخالف ہیں، نتیجہ ظاہر ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے تعلق نہیں، عیدالفطر اور رمضان کا فلسفہ اسلامی نظام امن و مروت کی مثالیں ہیں۔ جو مذہب غریبوں کے حقوق کو فائق رکھتا ہے وہ انسانیت کا کس قدر نجات دہندہ ہوگا۔ اس کے باوجود اسلام کو شدت پسندی کا مذہب کہنا تاریخ اور حالات سے جہل کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فکر کو صحیح فرمائے اور حق کہنے کی توفیق دے۔

بہ حیثیت قومیت کے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں، عید اسی کے اظہار کا دن ہے، جسم کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک حصہ مجروح ہوتا ہے تو پورا جسم متاثر ہوتا ہے، پوری مسلم امہ ایک جسم کی مانند ہے، آج اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہیں، عراق زخمی ہے، فلسطین گھائل ہے، افغانیوں کا لہو ارزاں ہے، پھر بھی ہم محو خواب ہیں، کیا بیداری کا وقت نہیں آیا، ہمارے جسموں کو لہو لہان کر دیا گیا ہے اور ہم ہوش کے ناخن نہیں لیتے، ہمارے بھائی زخمی ہیں اور ہم خوشیوں سے سرشار ہیں، اسلامی طرز سے خوشی مناتے تو اپنے بھائیوں کے دکھوں کا لحاظ ہوتا، مداوا کی صورت بنتی، لیکن یہاں حال یہ ہے کہ اسلام کا تصور عید فراموش کر کے زوال پذیر تہذیبوں کے غیر انسانی انداز کو ہم اپنی سوسائٹی میں داخل کر رہے ہیں، اس طرح فطرت سے انحراف واقع ہو رہا ہے، جو زوال کی علامت ہے، ہماری جڑیں واشنگٹن اور یورپ کے ایوانوں میں نہیں بطحا کی وادیوں میں ہے، طیبہ کے ریگ زاروں میں پیوست ہے، مدینہ امینہ سے ہمارا رشتہ روح کا ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جہاں سے تعلق انسانیت کی معراج ہے، جہاں سے پوری کائنات کی داد رسی اور فریاد پوری ہوتی ہے، اقبال نے سچ ہی کہا تھا:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

سچ ہے جب طیبہ کی محبت دل کے نہاں خانے میں بسی ہو گی تو مغرب کے پر فریب جلوے دلوں کی کھیتی اجاڑ نہ سکیں گے، جب من کی دنیا گنبد خضرا کے جلوے سے روشن ہو گی تو تن بھی اسلامی تہذیب کی عکاسی کرے گا اسی لیے شاہ احمد رضا محدث بریلوی نے کہا تھا:
انھیں کی بو مایہ سمن ہے انھیں کا جلوہ چمن چمن ہے
انھیں سے گلشن مہک رہے ہیں انھیں کی رنگت گلاب میں ہے

اسلام نے مسلم امہ کو جو اجتماعیت کا تصور دیا ہے عید اس کے اظہار کا دن ہے، یہ دن ایک مثالی دن ہے، دنیا کی باطل قومیں جانتی ہیں کہ اگر مسلمان اسلام کا تابع ہوگیا، رسول گرامی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرماں بردار ہو گیا تو اسے کوئی شکست نہ دے سکے گا، کوئی مسلمانوں کو اسیر نہ کر سکے گا، مسلم امہ مغلوب نہیں غالب رہے گی، لیکن اس کے لیے اسلام سے رجوع ضروری ہے، ہمیں اپنے رشتے اللہ و رسول سے جوڑنے ہوں گے تب دل کی دنیا میں روشنی پھیلے گی اور کامیابیاں قدموں کا بوسا دیں گی، اقبال کے الفاظ میں بیداری کے لیے ضروری ہے کہ:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.