تاریخِ رسالت اور تاریخِ عہدِ رسالت !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالضحٰی ، اٰیت 1 تا 11 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
والضحٰی 1
والیل اذا سجٰی 2
ما ودعک ربک و ما قلٰی 3
وللاٰخرة خیر لک من الاولٰی 4
ولسوف یعطیک ربک فترضٰی 5
الم یجدک یتیما فاٰوٰی 6 ووجدک ضالا
فھدا 7 ووجدک عائلا فاغنٰی 8 فاماالیتم
فلا تقھر 9 واماالسائل فلا تنھر 10 واما بنعمة
ربک فحدث 11
اے ہمارے رسول ! اُس روزِ رفتہ کی قَسم ہے جو آپ کی ہستی سے روشن ہوا اور اُس شبِ گزشتہ کی قِسم ہے جو آپ کے ہجر میں سیاہ پوش ہوئی ، آپ کے رب نے آپ کو کبھی چھوڑا بھی نہیں اور کبھی فراموش بھی نہیں کیا ، آپ کا آنے والا زمانہ آپ کے جانے والے ہر زمانے سے زیادہ بہتر زمانہ ہے ، آپ کی رضا میں اور آپ کے رب کی عطا میں کبھی بھی فرق نہیں آیا ، آپ کے رَب نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو بامقام بنایا ، تَنہا پایا تو عالَم کا رہنما بنایا ، عیال دار پایا تو مال دار بنایا ، سو اَب آپ یتیم پر مہربانی کرتے رہیں ، سائل کی نگہ بانی کرتے رہیں اور اپنے رب کا شکر بجالاتے رہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے سُورتِ بالا کے مفہومِ بالا میں سیدنا محمد علیہ السلام کی تاریخِ رسالت و تاریخِ عہدِ رسالت کا جو پس منظر بیان کیا ہے وہ قُرآن کا ایک وسیع الجہات مضمون ہے اور ہم قُرآن کے اِس وسیع الیجہات مضمون کے مُتعلقہ مقامات پر اِس مضمون کے بارے میں جو گفتگُو کر چکے ہیں وہ گفتگو اِس مقام پر ہمیں اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اِس مضمون کی اُن تفصیلات میں جاسکیں اِس لیئے اِس سُورت کے اِس مقام پر ہم اختصار کے ساتھ صرف یہ عرض کریں گے کہ اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں نبی علیہ السلام کے جس روشن دن بمعنی دور کا ذکر کیا گیا ہے اُس روشن دور سے آپ کے جَدِ اَمجد ابراہیم علیہ السلام کا دورِ نبوت مُراد ہے آپ اپنی ذات میں جن کے ایک مثیل نبوت ہیں اور اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں جس سیاہ رات کا ذکر کیا گیا ہے اُس سیاہ رات سے انسانی جہالت کی وہ سیاہ رات مُراد ہے جو آپ کے مثیلِ نبوت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہِ نبوت گزرنے کے بعد اور آپ کا زمانہِ نبوت آنے سے پہلے اِس عالَم پر آئی اور چھائی رہی ہے جبکہ اِس سُورت کی اٰیت 4 میں نبی علیہ السلام کے جس پہلے دور کا ذکر کیا گیا ہے اُس دور سے بھی آپ کے مثیلِ نبوت ابراہیم علیہ السلام کا وہ دور مُراد ہے جس دور میں اُنہوں نے اہلِ زمین کو توحید کی دعوت دی تھی اور اِس اٰیت میں آپ کے جس دُوسرے دور کا کا ذکر کیا گیا ہے وہ آپ کا وہی دور ہے جس دور میں آپ نے ابراہیم علیہ السلام کے مثیلِ نبوت کے طور پر اُسی توحید کی دعوت دینی شروع کی تھی جس توحید کے پہلی علَم بردار ابراہیم علیہ السلام تھے اور اِس اعتبار سے وہ پہلا دور بھی آپ کا دور تھا اور یہ دُوسرا دور بھی آپ کا دور ہے اور اسی لیئے اِسی اٰیت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ کو یہ تسلّی بھی دی گئی ہے کہ آپ کی دعوتِ توحید کا یہ دُوسرا دور اپنے نتائج و ثمرات کے اعتبار سے آپ کے اُس پہلے دور سے بھی بہتر دور ہو گا جس دور میں آپ کے مثیلِ نبوت کے طور پر ابراہیم علیہ السلام نے اہلِ زمین کو توحید کی دعوت دی تھی اور اُس دور کا چونکہ ہم فاتحة الکتاب کے مقدمة الکتاب میں بھی تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں اِس لیئے اِس مقام پر ہم اِس مضمون کی مزید تفصیل میں جانے کے بجائے اِس سُورت کی صرف اُس اٰیت 7 { ووجدک ضالا فھدٰی } پر ہی کُچھ گفتگُو کریں گے جس کا اکثر و بیشتر عُلماۓ تفسیر نے ایسا غیر مُحتاط ترجمہ کیا ہے جو سیدنا محمد علیہ السلام کی عظمت و شان کے خلاف ہے اور جن عُلمائے تفسیر نے اِس اٰیت کا جو مُحتاط ترجمہ کیا ہے وہ مُحتاط ترجمہ بھی آپ کی نبوت کے بلند تر مقام سے ایک فرو تر ترجمہ ہے چنانچہ مولانا فتح محمد جالندھری نے یہ مُحتاط سوالیہ ترجمہ کیا ہے کہ { اور رستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا رستہ دکھایا } اور اِس ترجمے کا marmaduke pickthall نے اپنی کلاسک انگریزی میں جو مفہوم ادا کیا ہے وہ مفہوم بھی یہ ہے کہ ( Did He not find thee wandering and direc ( thee اور اِن دونوں زبانوں میں کیا گیا یہ ترجمہ اُن ترجمہ کاروں کے فہمِ رسا کی رُو سے ہزار بار درست ہونے کے باوصف بھی مقامِ رسالت کے اُس اعلٰی منصب کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتا جو اعلٰی منصب اللہ تعالٰی نے آپ کو دیا ہے کیونکہ یہ محتاط ترجمہ یہ تو ظاہر نہیں کرتا کہ نبوت کا منصب ایک وہبی منصب ہے لیکن یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ نبوت کا منصب ایک ایسا کسبِ کمال ہے جس کی جس نے جستجُو کی ہے اُس کو دے دیا گیا ہے اور جس کی جو جو جستجُو کرے گا شاید اُس کو بھی دے دیا جائے گا ، قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں اِس فعل { ضل یضل } سے بننے والے اِن افعال کا مُختلف صیغوں اور ضمیروں کے ساتھ کم و بیش 163 مقامات پر استعمال کیا ہے اور اُن افعال کے مجموعی مطالعے سے اِس لفظ کے جو تین معنی مُتعین ہوتے ہیں اُن میں پہلا معنٰی تَنہا ہے ، دُوسرا معنٰی کوشش ہے اور تسیرا معنٰی بُھول ہے اور اِن تینوں معنوں کی تفصیل یہ ہے کہ عربی اہلِ لُغت صحرا کے سینے میں گڑے ہوئے اُس تَنہا درخت کو { ضالة } کہتے ہیں جو اللہ تعالٰی کے حُکم سے اُس ریگستان کی بے نَم زمین سے اپنا نَم اور اُس کی آتش گیر فضا سے اپنے لیئے کاربن حاصل کر کے اپنی خُدا داد قُوت سے پروان چڑھتا ہے اور پھر مسافرانِ راہ کے لیئے اِس طرح توجہ کا باعث بن جاتا ہے کہ وہ مسافرانِ راہ اُس کو دیکھ دیکھ کر اپنی اپنی راہ اور اپنی اپنی سمتِ راہ مُتعین کرتے ہیں اور اِس طرح اُس بے سمت صحرا کے اُس تنہا درخت کی وہ تنہائی ہی اُس بے سمت صحرا میں ہر گم راہ ہونے والے کی رہنمائی کا باعث بن جاتی ہے اور لُغت کے اِس مفہوم سے اللہ تعالٰی کے اُس رسولِ عالی کے بارے میں جو تفہیم حاصل ہوتی ہے وہ اِس سے زیادہ وضاحت کی مُحتاج نہیں ہے ، قُرآنِ کریم نے سُورَةُالنجم کی اٰیت 14 میں قُرآن کی پہلی آسمانی وحی کے اُس نُورانی موقعے پر سدرةُالمنتہٰی کے جس درخت کا ذکر کیا ہے اور جس درخت کو قُرآن نے شجرہِ طیبہ کا نام دیا ہے اُس مُبارک درخت کو عُلماۓ لُغت نے بھی اُس کی اسی انفرا دیت کی بنا پر ضالة کے نام سے موسوم کیا ہے اور لُغتِ قُرآن و لغتِ زمینِ قُرآن کا بیان کیا ہوا یہ مفہوم اِس اَمر کو مُکمل طور پر پایہِ ثبوت تک پُہنچا دیتا ہے کہ { ضالة } کا معنٰی گم راہ نہیں ہے بلکہ { ضالة } کا معنٰی نشانِ راہ ہے اور اِس لفظ کا جو دُوسرا معنٰی کوشش ہے اُس کا قُرآنِ کریم نے سُورَةُالکہف کی اٰیت 104 میں کفار کی ناکام کوشش کے حوالے سے اِس طرح ذکر کیا ہے کہ { الذین ضل سعیھم فی الحیٰوة الدنیا } یعنی اُن منکرینِ حق کی اپنی دُنیا کی زندگی کے لیئے کی گئی ہر ایک کوشش رائگاں چلی گئی ہے اور اِس لفظ کا تیسرا معنٰی جو بُھول ہے اُس کو قُرآن نے سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 52 میں سیدنا مُوسٰی علیہ السلام کی زبان سے اِس طرح ادا کرایا ہے کہ { لایضل ربی ولا ینسٰی } یعنی میرا رب تو وہ ہے جو اپنی اِس وحی کو کبھی بُھلاتا بھی نہیں ہے اور کبھی مٹاتا بھی نہیں ہے ، اِس موقعے پر اگر ہم انسان کے بُھولنے اور انسان کے بہکنے کے فرق کو واضح کرنا چاہیں تو وہ فرق اِس طرح واضح ہوگا کہ بُھولنے والا انسان بُھول کے لَمحاتی عمل سے گزرنے کے بعد فکرِ تازہ کے ساتھ جہانِ تازہ میں واپس آجاتا ہے بخلاف اِس کے کہ بہکنے والا انسان جو فکری گم راہی کا شکار ہوتا ہے وہ اپنے گم راہ کن خیالوں کی گم راہ کُن بُھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ جاتا ہے اِس لیئے کہ انسان کا بہکنا انسان کی ایک فکری گم راہی ہوتا ہے اور انسان کا بُھولنا قُدرت کی طرف سے انسان کو دی جانے والی ایک تازہ آگاہی ہوتا ہے اور جہاں تک اِس لفظ کے صرفی و نحوی قواعد کا تعلق ہے تو عربی زبان میں فعل { ضلّ } جب فعل ثلاثی مُجرد کی صورت میں باب ضرب یضرب سے آتا ہے تو اُس کا معنٰی بُھولنا ہوتا ہے اور جب یہی فعل ثلاثی مزید کی صورت میں باب اکرم یکرم سے آتا ہے تو اِس کا معنٰی بہکنا ، بہٹکنا اور گم راہ ہونا ہوتا ہے ، ضل یضل کی اِس تفصیل کے بعد ایک لَمحے کے لیئے مان لیجئے کہ انتخابِ ثمر میں انسان کی خطائے نظر کا خطرہ موجُود رہتا ہے ، ہزار احتیاط کے باوجُود شاخِ گُل کے خار دامن و دستار میں اُلجھ جاتے ہیں ، سیلابِ آب و گِل میں بہنے والا انسان بچتے بچتے بھی بہہ جاتا ہے لیکن اِس سُورت کے جس مقام پر اِس لفظِ { ضال } کا معنٰی گُمراہ کا ہم معنی کیا جاتا ہے اِس مقام پر اِس طرح کا گم راہ کُن معنٰی کرنے کا تو کوئی جواز { بالسہو } بھی موجُود نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558681 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More