انسان کا دینِ معاش اور انسان کا دینِ بے معاش !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالشرح ، اٰیت 1 تا 8 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الم نشرح
لک صدرک 1 و
وضعنا عنک وزرک 2
الذی انقض ظھرک 3 و
رفعنالک ذکرک 4 فان مع
العسر یسرا 5 ان مع العسر
یسرا 6 فاذا فرغت فانصب 7
والٰی ربک فارغب 8
اے ہمارے رسول ! کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے آپ کا سینہ اپنی وحی کے لیئے کھول دیا ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے آپ کا ذہنی و جسمانی بوجھ آپ کے ذہن و جسم سے اُتار دیا ہے اور کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے اہلِ حیات کو آپ کے نظامِ حیات کی طرف راغب کر دیا ہے لیکن اِس نظامِ حیات کے اِن علمی حقائق کے بعد اِس نظام کے موجُود عملی حقائق یہ ہیں کہ اِس نظام کا اَنجام اگرچہ فتوحات پر ہوتا ہے لیکن اِس کا آغاز مُشکلات سے ہوتا ہے تاہم اِس نظام میں ہر مُشکل کی ایک آسان کلید موجُود ہے اور یقینا اِس نظام میں ہر مُشکل کی ایک آسان کلید موجُود ہے لہٰذا جب آپ اِس نظامِ حیات کی مقامی تنظیم قائم کر لیں تو اِس نظامِ حیات کی بین الاقوامی تنظیم کے لیۓ بھی کوشاں ہو جائیں کیونکہ تمام اہلِ حیات کو اِس نظامِ حیات کے زیرِ اثر لانے کا یہی ایک راستہ ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا نام سُورتِ شرح ہے اور اِس شرح سے مُراد یہ ہے کہ قُرآن کی یہ سُورت قُرآن میں بیان ہونے والے اُن تمام اُمورِ وحی کی ایک شرحِ بسیط ہے جو اُمورِ وحی اِس سُورت سے پہلے قُرآن کی 96 سُورتوں میں بیان ہو چکے ہیں اور یہی سُورت اُن تمام اُمورِ وحی کی بھی ایک شرحِ بسیط ہے جو اُمورِ وحی اِس سُورت کے بعد آنے والی 18 سُورتوں میں بیان ہوں گے ، اِس سُورت کی اِس شرحِ بسیط کی غرض و غایت یہ ہے کہ قُرآن کی اِس وحی میں انسان کو جو نظامِ حیات دیا گیا ہے اُس نظامِ حیات کو کامیاب بنانے کے لیئے پہلا اَمرِ لازم تو یہ ہے کہ جو انسان اِس نظام کے لیۓ عملی جد و جُہد شروع کرے اُس کے دل میں اِس نظام کی صداقت کے بارے میں اتنا ہی پُختہ یقین ہو جتنا کہ اُس کو اپنے زندہ و موجُود ہونے کے بارے میں پُختہ یقین ہو ، اِس نظامِ حیات کو اہلِ حیات میں کامیاب بنانے کے لیئے دُوسرا اَمرِ لازم یہ ہے کہ جو انسان اِس نظامِ حیات کے لیئے اہلِ حیات میں اپنی عملی جد و جُہد کا آغاز کرے تو اُس کا دل و دماغ مالی و معاشی احتیاجات سے بھی مُکمل طور پر آزاد ہو تاکہ اِس نظامِ حیات کی عملی جد و جُہد کے دوران اُس کو اُس کا کوئی ذاتی احتیاج پابہ زنجیر نہ بنا سکے اور اِس نظامِ حیات کو اہلِ حیات کے درمیان کامیاب بنانے کے لیئے تیسرا اَمرِ لازم یہ ہے کہ جو انسان اِس نظامِ حیات کے لیئے عملی جد و جُہد شروع کرے تو اُس کی اُس عملی جد و جُہد میں اُس کے روز مرہ اُمور کی اَنجام دہی کے لیئے اُس کے کُچھ ایسے بے لوث اور مُخلص ساتھی بھی اُس کے ساتھ ہوں جو اُس کے روز مرہ اُمور نمٹانے میں اُس کا ساتھ دیتے رہیں تاکہ تنہا کام کرتے کرتے وہ نڈھال نہ ہو جاۓ ، جب کسی نظامِ حیات میں یہ تین اُمور بہم ہوجاتے ہیں تو اُس نظامِ حیات کی آواز اُس داعیِ حق کے حلقہِ دل سے نکل کر دُور دُور تک پھیل جاتی ہے اِسی لیئے اِس سُورت سے پہلی سُورت کی آخری دو اٰیات سے پہلی تین اٰیات میں اور اُس سُورت کے بعد اِس سُورت کی پہلی چار اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو بتایاہے کہ ہم نے آپ کی دعوتی تحریک کی یہ ابتدائی مُشکلات دُور کردی ہیں لہٰذا آپ اہلِ حیات میں اِس نظامِ حیات کی ترویج و شاعت کے لیئے حسبِ سابق مُسلسل مصروفِ عمل رہیں لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اِن تین اُمور کے بہم ہوتے ہی اِس وحی کا وہ نظام آنا فانا ہی قائم ہو جائے گا جو مطلوب ہے بلکہ اِس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اِن تین اُمور کے بہم ہونے سے اِس کام کا وہ اعلٰی آغاز ہوجاۓ گا جس کا ایک اعلٰی اَنجام ہوگا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ جب اِس کام کا ایک با قاعدہ آغاز ہوتا ہے تو اِس کام کے درمیان اِن متوقع مُشکلات کے درمیان وہ غیر متوقع مُشکلات بھی پیش آتی ہیں جو ہر ایک کام کے آغاز میں ہر ایک انسان کو پیش آتی ہیں اور جو انسان اِن صبر آزما مُشکلات کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اِن مُشکلات سے گزر جاتا ہے تو وہ انسان ایک نہ ایک دن اہلِ عالَم کے دل اور دماغ کو بدلنے میں ضرور کامیاب ہو جاتا ہے ، اِس سُورت کی اِن پہلی اٰیات کی اِس پہلی تفصیل کے بعد اِس سُورت کی آخری دو اٰیات میں نتیجہِ کلام کے طور پر اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو یہ بھی بتادیا ہے کہ جب یہ قُرآنی نظام مقامی سطح پر کامیاب ہو جاۓ گا تو اِس نظام کے بین الاقوامی سطح پر پیش کرنے کا وہ مُشکل مرحلہ آۓ گا جس کے لیئے آپ کو ایک سیاسی طاقت کی ضرورت ہوگی لیکن جب اِس تحریک کا وہ مُشکل مرحلہ آۓ گا تو آپ کو وہ سیاسی طاقت بھی ضرور دی جائے گی اور اُس سیاسی طاقت کی عملی تصویر یہ ہو گی کہ اُس میں رائج ہونے والا نظام ایک ایسا واضح نظام ہو گا جس نظام میں ہر دیکھنے والی آنکھ کو عدلِ اجتماعی ہوتا نظر آۓ گا ، اُس نظام کے زیرِ انتظام رہنے والے تمام انسان فکرِ معاش کے ذہنی بوجھ سے آزاد ہوں گے کیونکہ اُس نظام کے زیرِ انتظام رہنے والے لوگوں پر وہ قُرآنی ریاست کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالے گی جو اُن کی قُوتِ برداشت سے زیادہ ہو گا اور اُس ریاست میں کتابِ وحی کی وہ تعلیم عام ہو گی جس تعلیم کی وجہ سے وہ قُرآنی ریاست زمین پر آسمانی جنت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ بن جائے گی ، قُرآن نے اِس سُورتِ شرح میں انسان کے اِن معاشی مسائل و معاملات کا ذکر کر کے اِس حقیقت کو بھی اُجاگر کر دیا ہے کہ زمین کے اہلِ حیات پر جو نظامِ حیات اللہ تعالٰی کی طرف سے آتا ہے تو اُس نظامِ حیات میں اہلِ حیات کی حیات کے وہ سارے ہی اَسبابِ حیات بھی لازما موجُود ہوتے جو اَسبابِ حیات اُن اہلِ حیات کی حیات کے لیئے لازم ہوتے ہیں اور اہلِ زمین کے جس دین میں انسانی حیات کے یہ اَسبابِ لازم موجُود نہیں ہوتے وہ ایک عملی و حقیقی دین نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسا وہمی و خیال دین ہوتا ہے جو اپنے نام کے حوالے سے ہی ایک دین ہوتا ہے اپنے علم و عمل کے اعتبار سے کوئی دین نہیں ہوتا ، جہاں تک اِس قُرآنی دین کے ایک زندہ و مُتحرک معاشی نظام کا تعلق ہے تو یہ دین اپنے لَمحہِ ظہور کے ساتھ ہی اہلِ زمین کو اُس کے وہ انسانی حقوق فراہم کرنے کا پابند ہوتا ہے جو اُس کی کتابِ دین میں درج ہوتے ہیں لیکن قُرآن کے اِس سلسلہِ کلام میں اِس دین کے معاشی اُمور کے جن ترجیحی گوشوں کو اولیت دی گئی ہے اُن ترجیحی گوشوں میں سب سے پہلے انسانی معاشرے کے وہ یتیم و مسکین افراد آتے ہیں جن کا سُورَةُالفجر کی اٰیت 17 و 18 میں ، سُورَةُالبلد کی اٰیت 15 و 16 میں ، سُورَةُالیل کی اٰیت 5 و 6 میں اور سُورَةُ الضحٰی کی اٰیت 9 اور اٰیت 10 میں ذکر کیا گیا ہے اور یہ ذکر اِس لیئے کیا گیا ہے کہ اِس کتابِ وحی کے حامل انسان جان سکیں کہ اہلِ زمین کے جس دین میں انسانی معاش نہیں ہوتی وہ دین کُچھ بھی نہیں ہوتا اور اُس دین میں بھی کُچھ نہیں ہوتا اور جس بے معاش دین میں کُچھ نہیں ہوتا وہ بے معاش دین اپنے ماننے والوں کو بھی کچھ نہیں دے سکتا اور جو بے معاش دین اپنے اہلِ مملکت کو کُچھ نہیں دے سکتا وہ تادیر زمین پر قائم بھی نہیں رہ سکتا ، قُرآن کی اِس سُورت کے اور اِس سُورت کی دیگر مُتعلقہ سُورتوں کے اِس مُشترکہ بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ کے رسول کے شقِ صدر کا وہ قصہ ایک فرضی قصہ ہے جس کے مطابق پہلے ساڑھے تین سال کی عُمر میں جبریل نے آپ کا سینہ کھول کر اُس میں نُور بھرا اور پھر معراج سے پہلے دُوسری بار جبریل نے آپ کا دل جسم سے نکال کر اُس میں ایمان و حکمت سے بھر کر بند کردیا اور یہ روایات گھڑنے والی یہ مخلوق اتنی بے عقل مخلوق تھی کہ اِن یہ قصے گھڑتے وقت یہ خیال بھی نہیں آیا کہ معراج سے پہلے تو آپ حاملِ وحی تھے تو نزولِ وحی کے بعد آپ کے ایمان و حکمت میں وہ کیا کمی واقع ہو گئی تھی جس کے لیئے آپ کا سینہ دوبارہ شق کیا گیا ، اسی طرح اِن اہلِ روایت کی وہ روایات بھی فرضی روایات ہیں جن میں آپ کی غربت کے وہ افسانے بھی شامل ہیں جو اُس زمانے میں گھڑے گئے ہیں جس زمانے میں زمین سے قُرآنی نظام ختم کر دیا گیا تھا اور بادشاہوں کے شاہی مُلا اہلِ اسلام کو رسول و اَصحابِ رسول کی غُربت کے افسانے سنا کر اُن کی غربت اور اپنے بادشاہوں کی امارت کو قُدرت کا نوشتہِ تقدیر قرار دے کر اہلِ اسلام کو اسی غربت و اَفلاس کی چکی میں پستے ہوئے زندگی گزارنے کی وہ تعلیم دے رہے تھے جو تعلیم خُدا و رسول کی تعلیم نہیں تھی بلکہ اُن کے ظالم و عیاش بادشاہوں کی تعلیم تھی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461945 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More