#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالزلزال ، اٰیت 1 تا 8
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذا
زلزلت الارض
زلزالھا 1 واخرجت
الارض اثقالھا 2 وقال
الانسان مالھا 3 یومئذ
تحدث اخبارھا 4 بان ربک
اوحٰی لھا 5 یومئذ یصدرن
الناس اشتاتا لیروا اعمالھم 6
فمن یعمل مثقال ذرة خیرایره 7
ومن یعمل مثقال ذرة شرایره 8
جب زیرِ زمین زلزلے کی لہر زیرِ زمین چلا دی گئی تو زمین کی گرانی زمین سے
باہر آگئی اور انسان اُس پر ریجھ کر بولا کہ بَس یہی چیز میری ضرورت ہے اور
جب زیرِ زمین زلزلے کی یہی لہر دوبارہ زمین میں چلائی جاۓ گی تو اِس زمین
کی وہی گرانی دوبارہ اِس زمین سے باہر آجاۓ گی اور انسان حیران ہو کر کہے
گا یہ کیا ماجرا ہے کہ زمین لرزنے لگی ہے اور پھر انسان ہی انسان سے کہے گا
کہ خُدا نے شاید زمین کو نگلی ہوئی زندگیاں اُگل دینے کا حُکم دے دیا ہے
اور اُس روز جو جماعت حساب کے کٹہرے میں آۓ گی تو وہ آپ ہی اپنے سینے کے
چُھپے ہوۓ سارے راز سامنے لے آۓ گی اور اُس روز جس انسان کے پاس ایک ذَرے
برابر عملِ خیر ہو گا تو وہ اپنے اُس عملِ خیر کی پُوری پُوری جزا پاۓ گا
اور جس انسان کے پاس ایک ذَرے برابر عملِ شر ہو گا تو وہ بھی اپنے اُس عملِ
شر کی پُوری پُوری سزاۓ پاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا موضوعِ سُخن بھی انسانی حیات پر آنے والا انسانی حیات کا وہ
روزِ حساب ہے جس روزِ حساب کے آنے پر ہر انسان نے اپنے اِس دُنیا کے اعمالِ
نیک و بد کا حساب دینا ہے اور پھر ہر انسان نے اپنے اپنے اعمالِ نیک و بد
کے مطابق اپنے اپنے اَنجامِ نیک و بد سے گزر کر اپنے اپنے مقامِ نیک و بد
تک جانا ہے ، قیامت کے اُس یومِ حساب کا آنا اور قیامت کے اُس یومِ حساب کے
آنے پر انسان کا زمین کے پیٹ سے نکل کر زمین کے سینے پر آنا اور اپنے سینے
کے سارے پوشیدہ راز سامنے لانا اور اپنے اپنے اعمالِ نیک و بد کے مطابق
اپنی اپنی جزا و سزا کو پانا قُرآن کا وہ ہمہ گیر مضمون ہے جس ہمہ گیر
مضمون پر قُرآن نے جو ہمہ گیر دلائل دیئے ہیں اُن ہمہ گیر دلائل میں قُرآنِ
کریم کی ایک یہ دلیل بھی شامل ہے کہ مُستقبل میں آنے والے جس یومِ حساب کی
انسان کو خبر دی جا رہی ہے وہی یومِ حساب انسانی حیات پر ماضی میں بھی آکر
جا چکا ہے اور یہی بات اِس بات کی بھی ایک قوی دلیل ہے کہ انسان پر جو یومِ
حساب اِس سے پہلے بھی آچکا ہے وہی یومِ حساب انسان پر اِس کے بعد بھی آنا
ہے اِس لیئے کسی ہوشمند انسان کو اُس یومِ حساب کے آنے اور اپنے اُس یومِ
حسابِ کا سامنا کرنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے اور ویسے بھی
قُرآن کا علمی مزاج یہی ہے کہ وہ انسان کے سامنے وہی محسوس چیزیں پیش کرتا
ہے جن کا ایک محسوس خاکہ پہلے سے انسان کے ذہن میں موجُود ہوتا ہے اور
انسان اپنے ذہن کے اُسی مخصوص اور محسوس ذہنی خاکے مطابق ہی قُرآن کے خطاب
کو سُنتا اور سمجھتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کی ہر زبان کا ایک
معروف اُسلوبِ کلام یہ ہے کہ اُس میں جب خطاب کرنے والا انسان اپنے مُخطاطب
انسان کو پہلے گزرے ہوئے کسی بڑے خطرے کی ایک بڑی خبر سناتا ہے اور اُس کے
ساتھ ہی وہ آنے والے زمانے میں آنے والے ایک بڑے خطرے کی ایک بڑی خبر بھی
سنادیتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کی طرف سے دی جانے والی پہلی
خطرے کی خبر کا مقصد اپنے مُخاطب کے ذہن میں اُس خطرے کی اہمیت کو واضح
کرنا ہوتا ہے جو پہلے سے ہی اُس کے شعور میں موجُود ہوتی ہے اور اُس کی
دُوسری خبر سنانے کا مَنشا اپنے اُس مُخاطب پر اُس خطرے کی مقصدیت کو
اُجاگر کرنا ہوتا ہے جس کی مقصدیت کو جاننے کی اُس کی فطرت میں پہلے ہی سے
ایک طلب اور تڑپ موجُود ہوتی ہے اور خبر دینے والا انسان اپنے مخاطب کو اِس
لیئے وہ خبر دیتا ہے تاکہ جس طرح اُس انسان کے وجدان میں ماضی میں پیش آۓ
ہوۓ اُس خطرے کا یقین ہے جو اُس کی اِس زمین پر پہلے بھی پیش آچکا ہے اسی
طرح اُس انسان کو مُستقبل میں پیش آنے والے اُس خطرے کا بھی یقین آجاۓ جو
اُس کے مُستقبل میں اُس کی زمین پر پیش آنا ہے تاکہ اِس یقین کے بعد وہ اُس
خطرے سے بچنے کے وہ تمام مُمکنہ ذرائع بھی ضرور اختیار کرلے جو اُس کو اُس
خطرے کے متوقع نقصانات سے بچا سکیں اِس لیئے اِس سُورت کے اِس مضمون میں
قُرآن نے انسان کے اُس اُسلوبِ کلام کے عین مطابق پہلے تو اِس سُورت کی
پہلی اٰیت میں { زلزلت الارض } دُوسری اٰیت میں { اخرجت الارض } اور اِس کی
تیسری اٰیت میں { قال الانسان } میں ماضی ہی کے صیغوں کے ساتھ اُس قیامتِ
رَفتہ کا ذکر کیا ہے جو انسان پر گزر چکی ہےاور اُس کے بعد مُستقبل کے
صیغوں کے ساتھ مُستقبل کی اُس قیامت کا ذکر کیا ہے جس قیامت نے مُستقبل کے
انسان پر مُستقبل میں آنا ہے اور جس قیامت کے برپا ہونے کے بعد انصاف کی
اُس میزان نے قائم ہونا ہے جس میزان پر انسان کے اعمالِ نیک و بد عمل کے
ایک ایک ذرے کا حساب ہونا ہے اور ہر ایک انسان نے اپنے عملِ نیک و بد کے
ایک ایک ذرے کا بدلہِ نیک و بد پانا ہے ، عُلماۓ روایت نے قُرآن کے ہر مقام
کی طرح قُرآن کی اِس سُورت کے اِس مقام پر بھی ماضی کے تمام صیغوں کو
مُستقبل کے معنوں میں لیا ہے اور اِس خیال سے مُستقبل کے معنوں میں لیا ہے
کہ اُن کے خیالِ باطل کے مطابق اللہ تعالٰی کو عربی زبان کی وہ گریمَر نہیں
آتی جو اِن کے بزرگوں نے قُرآن میں اپنی مرضی کی معنوی تحریفات کرنے کے
لیئے وضع کی ہوئی ہے اِس لیئے وہ قُرآن کا قُرآن کی اندرونی لُغت کے مطابق
ترجمہ و تفسیر کرنے کے بجائے اپنے اُن ہی بزرگوں کی لُغت کے مطابق ترجمہ و
تفسیر کرتے ہیں جس کی بنا پر اُنہوں نے قُرآنی علم کو موم کی وہ ناک بنایا
ہوا ہے جس میں وہ اپنی مرضی سے کمی بیشی کر کے اُس سے اپنی مرضی اور اپنے
خانہ ساز فرقے کی مرضی کے وہ مفاہیم نکالتے رہتے ہیں جن مفاہیم کی جس وقت
اُن کو ضرورت ہوتی ہے !!
|