ایمان و صلاحیت اور صدق و صبر کی وصیت !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالعصر ، اٰیت 1 تا 3 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
العصر 1
ان الانسان
لفی خسر 2 الا
الذین اٰمنوا و عملوا
الصٰلحٰت و تواصوا بالحق
و تواصوا بالصبر 3
ہر زمان و مکان اِس اَمر کی شہادت دے رہا ہے کہ انسان ہر زمان و مکان میں مُبتلاۓ نقصان رہا ہے سوائے اُس انسان کے جس نے ہر زمان و مکان میں پُر اَمن رہ کر اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اپنا بہترین کام کیا ہے اور پھر اپنے بعد آنے والے انسان کو وہ صدق و صبر کی وصیت کرکے عالَمِ دُنیا سے عالَمِ عُقبٰی میں چلا گیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے قبل بھی ہم اِس اَمر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قُرآنِ کریم کے حرفِ اَوّل الف سے لے کر قُرآن کے حرفِ آخر سین تک قُرآنِ کریم کے جتنے بھی اَحکامِ اوامر و نواہی بیان ہوۓ ہیں اُن سارے اوامر و نواہی کا پہلا مُفصل بیانیہ سُورَہِ رحمٰن ہے ، دُوسرا مُجمل بیانیہ سُورَةُالانسان ہے اور اِن دو سُورتوں کے اِس مُفصل و مُجمل بیانیئے کا تیسرا مُختصر بیانیہ سُورَةُالاِنفطار ہے اور اِن تین سُورتوں کے اِن تین مُختصر بیانات کے بعد اِس مضمون کا چوتھا بیانیہ اِس سُورت کی تین اٰیات کے اَٹھاسی حروف سے بنی ہوئی یہی سُورَةُالعصر ہے جس کے اِس مُختصر ترین مضمون میں سارے قُرآن کے اُن سارے ضابطوں کو ایمان و صلاحیت اور یقین و صبر کے اِن چار ضابطوں میں سمو دیا کیا گیا ہے جو اِس سُورت میں بیان ہوۓ ہیں اِس لیئے اِس سُورت میں بیان ہونے والے جن چار اُمور پر زمان و مکان کی پیش کی گئی شہادت اِنہی چار اُمور پر پیش کی گئی شہادت نہیں ہے بلکہ قُرآن کے اُن تمام اَحکامِ اَمر و نہی پر پیش کی گئی ایک شہادت ہے جو قُرآن کی سُورتوں اور آیتوں میں بیان ہوۓ ہیں اور اِس مضمون کے اِس وسیع تناظر میں اِن چار امور کی جو وسیع تفسیر ہے وہ وسیع تفسیر بھی پُورے قُرآن کی وہ تفسیر ہے جس تفسیر کے مطابق زمین پر انسان کا پہلا کام اپنے خالق کی مخلوق ہونے کے اُس یقین سے پُریقین ہونا ہے جس یقین کا نام ایمان ہے ، ایمان کی اِس قُرآنی تعریف کے مطابق ایمان اللہ کی ذات و صفات پر انسان کے اُس ذہنی و قلبی اطمینان کا نام ہے جو ذہنی و قلبی اطمینان انسان کے مُشاہدہِ عالَم سے انسان کے قلب و ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور اُس کے بعد انسان کو خُدا کے خالق اور اپنے مخلوق ہونے کا وہ یقین حاصل ہوتا ہے جو یقین اُس کو عالَم کے سارے خطرات سے اِس طرح آزاد کر دیتا ہے کہ وہ اِس ذہنی و قلبی اطمینان کے بعد اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اپنا کام کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے اور جو انسان ایمان بالعمل کی اِس ذہنی و قلبی صلاحیت کے ساتھ کام کرتا ہے تو اُس کے قلب و ذہن پر خود بخود ہی وہ حق و صدق واضح ہوتا چلا جاتا ہے جو اُس کو ایک عُجلت پسند انسان کے بجاۓ ایک ایسا پُر اَمن و پُر سکون انسان بنا دیتا ہے جس کی رُوح میں وہ صبر و سکون پیدا ہو جاتا ہے جو اُس کے جسم و جان کو نفس کے جبری تناؤ سے آزاد کر کے ایک صابر و شاکر اور مُطمئن و مسرور انسان بنا دیتا ہے ، اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں جس لفظِ عصر کا ذکر ہوا ہے اُس عصر سے انسان کے ماضی و حال اور مُستقبل کے وہ سارے زمان و مکان مُراد ہیں جو انسانی زندگی پر آکر جا چکے ہیں یا انسانی زندگی پر آکر جاری ہوۓ ہیں اور یا پھر انسانی زندگی پر آکر جاری ہونے والے ہیں ، زمان و مکان میں سے زمام وہ غیر محسوس حقیقت ہے جو عالَم کے اِس مکان کو اپنے لَمحوں اور لحظوں کے حصار میں لے کر چل رہا ہے ، اِس کا ایک پلک جھپکنے کا ایک دورانیہ جو مُستقبل سے پہلے حال میں اور پھر حال سے ماضی کے دامن میں گرتا ہے وہ جتنا قلیل ہوتا ہے اُس سے آگے اور پیچھے کے دونوں زمانے اتنے ہی طویل ہوتے ہیں اور ماضی و مُستقبل کے اِن دونوں بیکنار زمانوں میں جو بیکنار وسعت ہوتی ہے اُسی وسعت کا نام عصر ہے جس کا اِس سُورت کی پہلی اٰیت میں ذکر ہوا ہے ، اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں جس انسان کا ذکر ہوا ہے وہ انسان نوعِ انسانی کا ایک فرد نہیں ہے بلکہ اَفرادِ انسانی کی وہ نوع ہے جو اِن زمان و مکان سے گزر کر ایک دُوسرے زمان و مکان میں جا رہی ہے ، قُرآنِ کریم کے اِس بیانِ مُفصل کے مطابق یہ انسانی نوع ہمیشہ ہی اپنے وجُودِ ذات پر آنے والے اِن سارے زمان و مکان میں اپنی دُنیا اور اپنی آخرت کے نقصان میں مُبتلا رہی ہے سواۓ اُن معدودے چند اَفراد کے جو اللہ کی ذات پر ایمان لاۓ ہیں اور اپنے ایمان کے اِس اطمینان سے مُطمئن ہو کر کارِ حیات کو اپنی بہترین جانی و جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ اَنجام دیتے رہے ہیں اور وہ ایمان دار لوگ اپنے اِس ایمان و صلاحیتِ جان کے مُثبت نتائجِ سے اتنے مُطمئن ہوۓ ہیں کہ وہ اِس اطمینان کی اپنی زندگی میں بھی ہر انسان کو دعوت دیتے رہے ہیں اور اپنی موت کے وقت بھی اپنے جُملہ اَحباب کو اِسی اطمینان پر قائم رہنے کی وصیت کر کے دُنیا سے جاتے رہے ہیں تاکہ اُن کی زندگی میں بھی دُوسرے انسان اِس ایمانی اطمینان کی طرف آئیں اور اُن کی موت کے بعد بھی وہ اپنے اِس ایمان و اطمینان کی لذت سے سر شار ہوتے رہیں ، نتیجہِ کلام کے طور پر اِس سلسلہِ کلام میں وارد ہونے والے اِس مضمون میں پہلی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قُرآن کی اِس اصلاحی فلاسفی کی پہلی بُنیاد انسان کا وہ ایمان ہے جس پر انسان کے علمِ حق کی عمارت اُستوار ہوتی ہے اور دُوسری بُنیاد انسان کی وہ انسانی صلاحیت ہے جس سے انسان کے عملِ صبر و خیر کی عمارت تیار ہوتی ہے اور اِس سلسلہِ کلام کی دُوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ایمان کی اِس عمارت سے وہ صدقِ حق نمُو دار ہوتا ہے جو انسان کی نجاتِ آخرت کا ضامن ہوتا ہے اور انسانی صلاحیت کی عمارت سے وہ صبرِ بر حق نمُو دار ہوتا ہے جو انسان کی نجاتِ دُنیا کا ضامن ہوتا ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461725 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More