ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ کہا گیا ہے ۔ آئینہ بہت
دیانت دار ہوتا ہے ،دوسرے کو اس کا وہی عکس دکھاتا ہے جو حقیقت میں وہ ہوتا
ہے، اپنی طرف سے کمی بیشی نہیں کرتا ،نہ اضافہ کرتا ہے۔ کوئی شخص بھی آئینے
میں خود کو دیکھ کے جان لیتا ہے کہ میری تیاری میں کمی کہاں رہ گئ ہے اور
پھر اس کمی کو ٹھیک کر لیتا ہے۔ اس لحاظ سے آئینہ بڑے کام کی چیز ہے !
ایک بات کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے کہ اس آئینے پر اگر گردو غبار پڑا
ہوتو پھر یہ درست عکاسی کرنے سے قاصر ہوتا ہے ،بعض اوقات ادھوری تصویر پیش
کرتا ہے ،بعض اوقات دھندلی اور کبھی تو بھیانک ۔ قصور کس کا ہے ؟ اس گرد
اور دھول کا ،جو آئینے پر پڑی رہ گئ،جسے کسی نے صاف ہی نہ کیا لیکن ذرا سی
اس گرد نے آئینے کو اس ذمہ داری کے مقام سے ہٹادیا جو اس کا مقصدِ وجود
تھا!
بعینہٖ ، اگر ہمارا چشمہء بصارت ہی دھندلا یا سیاہ ہے ،اس پر شکوک و شبہات
کی گرد پڑی ہے تو وہ کبھی ہمیں اصل تصویر نہیں دکھا سکتا۔ مسلمانوں کو
دوسرے مسلمانوں کے بارے میں اسی لئے کہا گیا ہے کہ بدگمانی سے بچو ،اس لئے
کہ بعض گمان ،گناہ ہوتے ہیں۔جو شک ،جو تقابل ہم نے اپنے ذہن میں پال رکھا
ہوتا ہے ،وہ گمان ہمیں سچ تک پہنچنے ہی نہیں دیتا۔ پنجابی کے ایک شعر کا
مفہوم ہے :
اتنا نہانے دھونے کا کیا فائدہ؟ اگر دل کو صاف نہ رکھا
یہ تو ایسا ہی ہے کہ
مچھلی ساری زندگی پانی میں گزارے لیکن اس کی بو نہ جاۓ !
تو کسی کو آئینہ دکھانے سے پہلے یہ دیکھیں کہ اپنے آپ کو ہر شک و گمان سے
پاک صاف کرلیا ہے یا نہیں ؟اس دنیا میں تو چینی اور نمک ،ایک جیسے دکھتے
ہیں مگر ہوتے نہیں ۔خوف_خدا،آخرت کی جواب دہی کی فکر، دوسرے کے لئے وہی عدل
جو اپنی ذات کے لئے پسند ہے ،ان لوازمات سے ذرا اپنے آئینے کو چمکا لو تاکہ
دوسرے کی صحیح عکاسی کرسکو۔
ہم نے ہر رخ کے مقابل آئینہ رکھا مگر
ایک خود کو آئینے کی آنکھ سے دیکھا نہیں ! |