#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالنصر ، اٰیت 1 تا 3
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
اذا جاء
نصر اللہ والفتح 1
ورایت الناس یدخلون فی
دین اللہ افواجا 2 فسبح بحمد
ربک و استغفره انهٗ کان توابا 3
اے ہمارے رسول ! جب آپ اللہ کی مدد سے انسانی قافلوں کو فتحِ قلُوب کے بعد
قافلہ در قافلہ ہو کر قُرآن کے حلقہِ اطاعت میں آتا ہوا دیکھیں تو آپ اللہ
کا شکر بجا لائیں اور اُن قافلوں کی علمی تربیت کے لیئے اپنی عملی تربیت کو
تیز سے تیز تر کردیں اور قُرآن کے اِس حلقہِ اطاعت میں آنے والے اِن انسانی
قافلوں کو اپنی آغوشِ رحمت میں سمیٹ لیں کیونکہ اللہ کو اپنے بندوں کا
معصیت کے اندھیروں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آنا اور ایمان کی روشنی
میں رہنا محبوب ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سابقہ سُورت میں اہلِ مکہ کے جبرِ مُسلسل اور اہلِ ایمان کے صبرِ مُسلسل کے
حوالے سے اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو ایک ملی جُلی معاشرت
میں رہنے والی دو مُسلم و کافر جماعتوں کے درمیان معاشرتی تناؤ گھٹانے کا
جو اصول سکھایا تھا اور اُس اُصول کو مدینے کی قُرآنی ریاست میں جب اللہ کے
رسول نے عملی جامہ پہنایا تھا تو آپ کے اُس عمل کا نتیجہ انسانی قافلوں کا
قافلہ در قافلہ ہوکر قُرآن کے حلقہِ اطاعت میں آنے کی صورت میں ظاہر ہوا
تھا اور اُس سُورت کے بعد اَب جو سُورَةُالنصر لائی گئی ہے اِس سُورت کی
خاص بات یہ ہے کہ جس طرح سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی وفات سے کُچھ روز
پہلے سُورَةُالمائدة کی اٰیت 3 اپنی اُمت کو اپنی اُمت کی یاد دھانی کے لیۓ
قُرآن کی آخری اٰیت کے طور پر سنائی تھی اسی طرح سیدنا محمد علیہ السلام نے
اپنی وفات سے کُچھ روز پہلے قُرآن کی یہ سُورت بھی قُرآن کی آخری سُورت کے
طور پر اپنی اُمت کو اپنی اُمت کی یاد دھانی کے لیئے سنائی تھی ، اِس آخری
سُورت اور اِس آخری اٰیت کے ساتھ ہم نے سنائی گئی کی یہ قید اِس لیئے لگائی
ہے کہ اہلِ روایت نے قُرآن کی تمام سورتوں اور قُرآن کی تمام اٰیتوں کو اِن
کے نزول کے اعتبار سے مکی اور مدنی کے دو خانوں میں تقسیم کیا ہوا ہے اور
اِس تقسیم کا یہ کام اُنہوں نے ایک تو اِس وجہ سے کیا ہے کہ اُن کے خیال
میں جو سُورت یا جو اٰیت جس وقت اور جس مقام پر نازل ہوتی تھی وہ اسی وقت
اور اُسی مقام پر سنائی جاتی تھی اور سنانے کے بعد اُسی وقت کسی مَٹکے میں
ڈال دی جاتی تھی جس کے بعد اُس سُورت و اٰیت کے سننے و سنانے کی کبھی نوبت
ہی نہیں آتی تھی اِس لیئے وہ ہر سُورت و اٰیت کو مکے و مدینے یا دونوں جگہ
پر دو بار نازل ہونے والی سُورت و اٰیت کہتے ہیں اور اُن کی اِس تقسیم کی
دُوسری وجہ یہ یہ ثابت کرنا ہے کہ قُرآن نبی علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں
جمع نہیں ہوا تھا بلکہ آپ کے وصال کے بعد جمع کیا گیا تھا مگر حقیقت یہ ہے
کہ قُرآن آپ کی حیات میں جمع ہو چکا تھا جس کی ہر سُورت و اٰیت کو آپ
مُختلف حسبِ حال مواقع پر سناتے رہتے تھے جس طرح کہ سُورَةُالنصر اور
سُورَةُالمائدہ کی اٰیت 3 آپ نے اپنی وفات سے کُچھ روز پہلے سنائی تھی اور
جو بادی النظر میں اِس اَمر کی اطلاع تھی کہ اَب آپ نے بہت تھوڑے سے وقت
میں بہت زیادہ کام کرنا ہے اِس لیئے آپ اِس تھوڑے سے وقت میں اُن اَفراد کی
علمی و عملی تربیت کا کام مُکمل کر لیں جو اِس وقت تک قُرآن کے حلقہِ اطاعت
میں آچکے ہیں تاکہ آپ کے بعد آپ کی اُمت کا دینی و سیاسی مُستقبل مُستحکم
ہو جاۓ چناچہ جب آپ نے اپنی وفات سے پہلے اُمت کو قُرآن کی یہ آخری سُورت
اور آخری اٰیت سنائی تھی تو اسی موقعے پر آپ نے اپنے اَصحاب اور اَحباب کے
درمیان چلتے پھرتے ہوئے مُختلف اوقات میں شاید وہ الفاظ بھی ارشاد فرماۓ
تھے جن کو اہلِ روایت نے خطبہِ حجة الوداع کے نام سے اِس طرح جمع کیا ہے جس
طرح وہ ایک وقت اور ایک ہی مقام پر آپ کا دیا گیا ایک مربوط خطبہ ہے
حالانکہ وہ آپ کا ایک وقت اور ایک مقام پر دیا گیا کوئی خطبہ نہیں ہے بلکہ
مُختلف اوقات میں آپ کے فرمائے ہوۓ چند ارشادات کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس
کی آفاقی اہمیت ہر ایک کے نزدیک مُسلّم ہے لیکن سیدنا محمد علیہ السلام کی
حیات کے آخری اَیام ، قبائلِ عرب کی فتحِ قلُوب اور اُس فاتحِ قلُوب ہستی
کے آخری اَیام کی آخری تعلیم و تربیت کی حقیقی تصویر قُرآن کی یہ سُورت ہے
جو اہلِ روایت کے نزدیک شاید ایک مَٹکے میں پڑی رہی ہے اِس لیئے اُن کی
نگاہ میں یہ سُورت شاید کبھی نہیں آئی ، اِس سُورت کی آخری اٰیت میں سبح و
حمد اور استغفر کے جو تین اَحکام وارد ہوۓ ہیں اُن تین اَحکام میں سے پہلا
حُکم سبح ہے جس کا معنٰی انسان کا اپنے دائرہ حرکت و عمل رہتے ہوۓ حرکت و
عمل کرنا ہے ، دُوسرا حُکم حمد ہے جس کا خُدا کی حاصل نعمت پر اظہارِ تشکر
ہے اور تیسرا حُکم استغفار ہے جس کا معنٰی جسم و جان کو زخمی کرنے والی
چیزوں سے چُھپانا ہے اور اسی بنا پر جنگ کے دوران سر کو دشمن کے تیر و تیغ
سے بچانے والے سنگی خود کو مِغفر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مغفر انسانی سر کو
زخمی ہونے سے بچاتا ہے اور اِس اٰیت کے سیاق و سباق کی رعایت سے اِن تینوں
الفاظ کا وہی مفہوم ہے جو متنِ اٰیات کے تحت ہم نے تحریر کیا ہے لیکن اہلِ
روایت نے اِن الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول
علیہ السلام سے کہا ہے کہ آپ کا کارِ نبوت چونکہ اَب ختم ہوچکا ہے جس کے
بعد آپ کا دَمِ واپسیں قریب ہے اِس لیئے اَب آپ تسبیح بدست ہو کر اور ایک
مُصلّے پر بیٹھ کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی تلافی میں مصروف ہو جائیں
حالانکہ اللہ کے نبی کا کارِ نبوت رُوۓ زمین کے ہر زاہد و صوفی کے تسبیح و
مُصلے اور ہر ایک انسان کے ہر ایک کام سے ایک افضل تر کام ہوتا ہے !!
|