بخدمت جناب آئی جی پی خیبر پختونخواہ پولیس


جناب عالی !

گزارش ہے کہ خیبر پختونخواہ کے شہریوں کی ماﺅں کو گالیاں دینا ایک معمول بن گیا ہے آج بروز جمعرات 10 نومبر کو کم و بیش آٹھ بجے کے قریب ایک موٹر سائیکل جسے ایک نوجوان جس کی عمر اٹھارہ سے بیس سال لگ رہی تھی ٹریفک پولیس کے دو اہلکاروں نے پکڑا تھا ، اور اس کے ساتھ بحث کررہے تھے. لڑکے کے پاس لائسنس نہیں ہوگا یا ہیلمٹ نہ پہننا اس کی غلطی تھی لیکن ان دونوں کی غلط روئیے کی وجہ سے اس نوجوان نے کہاکہ مجھے چھوڑ دو میرا دماغ خراب مت کرو.
دونوں اہلکاروں نے گرین کلر کے مخصوص ڈیزائن والے جیکٹ پہنے تھے اس لئے ان کے نام نظر نہیں آرہے تھے لیکن ایک نے کالی عینک پہنی تھی اور اس کے کندھے دو پھول لگے تھے اور اس کی داڑھی گھنی تھی جبکہ دوسرا کانسٹیبل تھا اور اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی جسے اس نے تراش خراش کر بنایا تھا.
لڑکے نے اگر غلطی کی تھی تو پھر اسے جرمانہ کرنے کی ضرورت ہے خواہ اس نے ہیلمٹ نہیں پہنا تھا یا پھر اس کے پاس لائسنس نہیں تھا لیکن موٹر سائیکل سوار نوجوان کی جانب سے یہ جملہ مجھے چھوڑ دو میرا دماغ خراب مت کرو ، کالی عینک پہنے والے پولیس اہلکار کو غصہ آگیا اور اس نے "ستا دا مور کس اوغائم " اس کا اردو میں ترجمہ میں نہیں کرسکتا. لیکن یہ الفاظ نے مجھے ان کی جانب متوجہ کیا. میں اپنے بچے کو سکول چھوڑنے جارہا تھا.اور پھر دوسرے کانسٹیبل نے بھی نوجوان کی ماں کو "ستا دامور کس اوغائم" والا جملہ بول دیا اور پھر اس کے موٹر سائیکل کو روک دیا گیا.
مجھ سمیت سکول کے طلباءکی بڑی تعداد اس جھگڑے کو دیکھ رہی تھی اور یہ سکول کے بچے تھے جنہیں ہم اپنے آنیوالا مستقبل قرار دیتے ہیں اور موٹر سائیکل پر بیٹھا نوجوان بھی ہمارا آنیوالا مستقبل تھا.
سوال یہ ہے کہ اگر اس نے ہیلمٹ نہیں پہنی تھی تو اس کو جو جرمانہ کرنا تھا کرلیتے ، اگر اس کے پاس لائسنس نہیں تھا تو موٹر سائیکل لے جاتے لیکن اس کی ماں کو گالیاں دینے کا حق انہیں کس نے دیا ہے.
یہی نوجوان اگر بہت زیادہ حساس ہوگا تو کل انہی میں سے کسی پولیس اہلکار کی "تشریف کی ٹوکری "پر گولی ما ر دے گا کیونکہ ہمارے معاشرے میں ماں بہن کی گالیاں کوئی برداشت نہیں کرتا.آپ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں.آپ لوگ تو " قومی جھنڈے"میں اسے لپیٹ کر "شہید قرار "دینگے لیکن اس نوجوان کا مستقبل کیا ہوگا جو آپ کے ہی ٹریفک اہلکار کی روئیے اور ماں کی گالیوں سے بگڑ گیا.
محترم!
کالی وردی پہن اور بیلٹ باندھ کر لوگوں کی ماﺅں کی گالیاں دینا شائد تھانوں کا کلچر ہوگا کیونکہ وہاں تک رسائی کسی کے پاس نہیں ہوتی لیکن سڑکوں پر اگر آپ کے اہلکار شہریوں کی ماﺅں کو اس طرح یاد کرینگے تو پھر یہی شہری بھی ٹریفک اہلکاروں کی ماﺅں کو یاد کرینگے کیونکہ ادلے کا بدلہ ہی ہوتا ہے.
میں بطور شہری اس واقعے کی ریکارڈنگ نہیں کرسکا کیونکہ اس کی وجہ سے پھر ایشو بنتا لیکن اگر آپ اس واقعے کی ریکارڈنگ چیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر اسی چچا یونس پارک جی روڈ کے ساتھ واقع سکول کے سامنے مین روڈ پر لگے دو سیکورٹی کیمروں میں نہ صرف واقعے کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ اس کی ریکارڈنگ دیکھ کر آپ ان اہلکاروں کو بھی پہچان سکتے ہیں ، اور ٹریفک ہیڈ کوارٹر سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت اس سکول روڈ پر کس کی ڈیوٹی تھی. یہ تو آج صبح کا واقعہ ہے پتہ نہیں یہی ٹریفک اہلکار دن میں کتنے افراد کی ماﺅں کو " اسی طرح "یاد کرتے ہونگے ، حالانکہ ان کی اپنی مائیں بھی گھر میں بیٹھی ہونگی.
محترم ! اگر اللہ تعالی نے پولیس کو عزت دی ہے تو پھر اس عزت کی بھی لاج رکھ لیجئیے اور ٹریننگ کیساتھ انہیں یہ بھی یاد دلائیں کہ یہ وردی اور انہیں ملنے والی تنخواہ بھی انہیں ماﺅں کے بیٹے اپنے " خون پسینے "کی کمائی ٹیکس کی مد میں دیکر انہیں ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ملتی ہیں.خدارا !اپنے ٹریفک اہلکاروں کی تربیت کیجئیے. لوگوں کی ماﺅں کو اس طرح غلیظ گالیاں دینے سے کچھ نہیں بنے گا البتہ ایسے اہلکاروں سے نہ صرف خیبر پختونخواہ کی پولیس کا امیج خراب ہوگا بلکہ اس سے امن و امان کا بھی مسئلہ پیدا ہوگا.
العارض
ایک شہری

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497603 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More