روایات رفتہ

تعلیمی اداروں ، اساتذہ اور طلبہ کی روایات رفتہ ، اخلاقی اور تہذیبی تناظر میں ۔

روایات رفتہ جو کھو گئیں ۔
یہ انیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائی کا ذکر ہے۔
تذکرہ کرتے ہیں ان بے بہا روایات رفتہ کا جو ہجومِ واقعات و حوادث میں متاعِ غریب کی طرح بہ عجلت مفقود ہوتی چلی گئیں ۔ وہ زمانے بھی کتنے جلدی گزر گئے جب شائستگی اور آداب و اخلاق کے گہوارے یعنی ہمارے علم و آگہی کے مراکز تعلیمی ادارے ہمیں تہذیب و تمدن کا درس دیا کرتے تھے ۔ نظری مباحث و اختلافات کا قرینہ موجود تھا ۔ مخالفت برداشت کرنے کا سلیقہ اور اختلاف رائے قبول کرنے کی وسیع القلبی موجود تھی ۔

میرا زمانہُ طالب علمی کچھ زیادہ دور کی بات نہیں ہے جب تالیوں کی گونج اور نعرہُ مستانہ ہی موافقت اور مخالفت کا اظہار ہؤا کرتے تھے ۔ علم ، عقل و شعور اور منطق ہی دلائل کا خزانہ ہوتی تھی ۔ نظریاتی کشمکش و محاذ آرائی محض گرما گرم مباحثوں، مذاکروں مکالموں اور گفتگو پر محیط ہؤا کرتی تھی۔ آداب و اخلاق کا دامن پھر بھی نہیں جھوڑا جاتا تھا۔ مقرًرین شعلہ بیانی میں شستہ کلامی اور شائستگی کا دامن تھامے رہتے تھے اور مصنًفین اپنی تحریروں میں اعلیٰ ادبی ذوق و حفظ مراتب کا خیال رکھا کرتے ۔
طالبِ علم اور استاد کے درمیان رشتہٌ احترام استوار تھا۔

مجھے یاد ہے کہ چاہے انتخابی مہم کا میدان ہو یا درونِ خانہ کمرہْ مباحثہ ہو یا ادبی عدالت، ہمارے کالجوں اور جامعات کا ماحول خالص مثبت ، علمی و ادبی ہؤا کرتا تھا۔ جیتا وہی کرتا تھا جس کے لہجے میں حلاوت، بات میں مٹھاس، علمی دلائل، منطقی نستعلیقیت، بر محل شعری انتخاب اور فن تقریر میں ید طولٰی ہوتا تھا۔ جامعہ کراچی میں گزرے ماہ و سال اس ماحول کے شاہد ہیں ۔ میرے دورِ جامعہ کراچی میں ہر سیاسی و ادبی سرگرمی طلباء کے لئے سیکھنے سکھانے ، برداشت و رواداری ، اخلاقیات کا درس لئیے ہوئے ہوتی تھی ۔

انتخابی مہمّات میں اگر رنگ برنگ کے طنزیہ و مزاحیہ نعروں سے فضا معمور ہوتی تھی وہاں ان نعروں میں ایک ادبی رنگ، غنائی پہلو ، موسیقیت اور اولوالعزمی نمایاں ہؤا کرتی تھیں لیکن دائرہُ اخلاق میں رہتے ہوئے ۔

اساتذہ کرام شفیق و معاون ، حاضر دماغ ، اور علم و فضل میں یکتا ، محنتی اور پابندِ وقت ہوتے تھے ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اگر کوئی سوال پوچھا ہو اور اس کا جواب خندہ پیشانی سے نہ ملا ہو ۔

دوستوں، یاروں کی محفلوں میں شعر و ادب کے تذکرے، سیاسیات عالم پر مباحثے، مذہب اور دہریت پر مکالمے اور دلائل، کتابوں پر تبصرے، دائیں اور بائیں بازو کے نظریات پر گفتگو یہ اور اسی قسم کے پرمغز
موضوعات ہماری گفتگو کا محور ہؤا کرتے تھے۔ یہی ماحول تھا جس کی وجہ سے بعد میں جس امتحان سے بھی گذرنا پڑا ، جیسے سوالات سے بھی واسطہ پڑا یا جو حالاتِ بھی درپیش ہوئے فیضانِ اساتذہ اور صحبتِ یارانِ مخلص و ذہین سے سرخروئی حاصل ہوئی ۔

ساٹھ اور ستّر کی دھائی میں جامعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے طلباء نے اپنا آپ منوایا ۔ شعبہ ہائے علوم و فنون سے نکلنے والے طلباء نے ، سائینس، صحافت، لسانیات ادبیات، سیاسیات اور دیگر میدانوں میں نمایاں مقام حاصل کیا اور قابلِ قدر خدمات سر انجام دیں ۔

نام تو بے شمار ہیں لیکن میں نے عمداً نام لینے سے گریز کیا ہے کہ پردۂ ذہن سے اب بہت سے نام محو ہوگئے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی ایک نام بھی کہیں رہ نہ جائے ۔ بحرحال جو احساسات و خیالات تھے قلم بند کردئیے ۔

بعد میں آنے والے ادوار میں یہ روایات زوال پذیر ہوتی چلی گئیں ۔
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی
نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

اب ہم صرف تماشائی ہیں روایات کو پامال ہوتے ہوئے دیکھنے والے ، اقدار و ادب کو زوال پذیر ہوتے ہوئے دیکھنے والے ، زبان و بیان میں ادب کے بجائے رنگِ بے ادبی، لغویات اور متلوّن مزاجی ، کو شامل ہوتے ہوئے دیکھنے والے ، مزاج میں برداشت کا فقدان ، تلخ کلامی اور چڑچڑاہت اب ہماری گفتگو کا معمول ہے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

Tariq Zafar Khan
About the Author: Tariq Zafar Khan Read More Articles by Tariq Zafar Khan: 8 Articles with 6746 views A enthusiastic reader and writer. Interested in new discoveries, inventions, innovations in science and their place and effect in society and religio.. View More