عقیدہِ تَشریک اور عُقدَہِ توحید !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاخلاص ، اٰیت 1 تا 4 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل ھو
اللہ احد 1
اللہ الصمد 2
لم یلد و لم یولد 3
ولم یکن لهٗ کفوا احد 4
اے ہمارے رسول ! آپ اہلِ زمین میں اِس اَمر کا اعلان کر دیں آپ پر نازل ہونے والی اِس کتابِ حق میں مخلوق کے جس خالقِ عالَم کا ذکر ہوا ہے اُس خالقِ عالَم کا نام اللہ ہے اور وہ اپنی ذات میں ایسا مُکتفی { اَحد } ہے جس کا کسی کے ساتھ اور کسی کا جس کے ساتھ کوئی تولیدی رشتہ نہیں ہے اِس لیئے اُس خالق کی کسی مخلوق میں کوئی فردِ واحد بھی اُس اَحد کا ہمسر نہیں ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا کلمہِ اَوّل بھی اللہ کا وہی حُکمِ { قُل } ہے جو اِس سُورت سے پہلے گزرنے والی دو سُورتوں سے پہلے بھی گزر چکاہے اور اُس گزرے ہوۓ حُکمِ قُل اور اِس گزرتے ہوۓ قُل کا مقصد اِس حُکمِ قُل کو مخلوق کے مانُوس الفاظ میں ڈھال کر مخلوق کے سامنے پیش کرنا ہے اور اِس مقصد کی تعمیل کے لیئے اُس اللہ اَحد نے اپنی مخلوق کے سب سے اعلٰی فرد کو حُکم دیا ہے کہ وہ اِس حُکمِ قُل کو اُس کے اُن اعلٰی ترین الفاظ کے ساتھ اُس کی مخلوق کے سامنے پیش کرے جن اعلٰی ترین الفاظ کے ساتھ اُس نے اُس پر اپنا یہ حُکم نازل کیا ہے ، اِس سُورت کے اِس کلمہِ اَوّل کے بعد اِس سُورت میں جو کلمہِ ثانی آیا ہے وہ اسمِ اللہ ہے جو اپنے لفظ و تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسا اسمِ جامد ہے جو اسمِ جامد کسی دُوسرے لفظ سے مُشتق نہیں ہوا ہے اور اِس اسمِ جامد سے بھی کوئی دُوسرا لفظ مُشتق نہیں ہوا ہے ، اِس سُورت کے اِس کلمہِ اَوّل و کلمہِ ثانی کے بعد اِس سُورت کا تیسرا کلمہ اِسمِ ضمیر { ھو } ہے جس کا معنٰی { وہ } ہے اور عربی زبان کے قوانینِ زبان کے مطابق اگر { وہ } کے اِس اشارہِ ضمیر سے پہلے کوئی واقعہ بیان کیا جاۓ تو اِس اسمِ ضمیر کو ضمیرِ قصہ کہا جاتا ہے لیکن اِس سُورت کے اِس مقام پر اللہ کے اِس حُکمِ قُل سے پہلے کوئی واقعہ بیان نہیں ہوا ہے بلکہ اِس کے بعد آنے والا یہ اسمِ ضمیر { ھو } آیا ہے جس نے اِس اسمِ ضمیر کو ضمیرِ شان بنا دیا ہے اور اِس ضمیر شان نے اُس خالقِ عالَم کی اِس شانِ { اَحد } کو بیان کیا ہے کہ وہ اَحد اپنی ذات میں ایسا واحد نہیں ہے جس سے پہلے اور جس کے پیچھے اعداد کا کوئی سلسلہ چلتا ہے بلکہ وہ تو ایک ایسا { اَحد } ہے جس اَحد سے پہلے بھی کوئی عدد نہیں آتا اور جس اَحد کے بعد بھی کوئی عدد نہیں ہوتا ، اِس سُورت میں وارد ہونے والے اِن تین کلمات کے بعد اِس سُورت میں وارد ہونے والا چوتھا کلمہ اللہ کا اسمِ صفت { الصمد } ہے جو اسمِ معرفہ ہے اور اہلِ روایت نے اِس اسمِ معرفہ کا جو ترجمہ کیا ہے اُس کا مفہوم اللہ کا اپنی مخلوق سے بے نیاز ہونا ہے اور اللہ کا اپنی مخلوق سے بے نیاز ہونا اللہ کا اپنی مخلوق سے لاتعلق ہونا ہے اور اِس بنا پر یہ ترجمل درست نہیں ہے کیونکہ اگر اللہ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہوتا تو اُس کی اِس مخلوق کا اُس کے اِس عالَم میں وجُود ہی موجُود نہ ہوتا اِس لیئے اُس کی صفتِ { الصمد } کا مقصدی مفہوم اُس کی ہستی کا ایک ایسی مُکتفی ہستی ہونا ہے جس مُکتفی ہستی کا ہر کام اُس کی مخلوق کی اعانت و صیانت کے بغیر ہوتا ہے اور اُس کی کسی مخلوق کا کوئی کام اُس کی اعانت و صیانت کے بغیر نہیں ہوتا ہے ، اِس سُورت کے اِن چار کلمات کے بعد اِس سُورت کا پانچواں کلمہ { لم یلد } اور چھٹا کلمہ { لم یو لد } ہے اور اِن دونوں کلمات کا حاصل کلام یہ ہے کہ اُس اللہ اَحد و صمد کا کسی اپنی کسی مخلوق کے ساتھ کوئی تولیدی رشتہ نہیں ہے اور خود اُس کے ساتھ بھی اُس کی کسی مخلوق کا کوئی تولیدی رشتہ نہیں ہے جس کا مطلب یہ ہے وہ اِس عالَم کے کسی انسان کا { ولد } بھی نہیں ہے اور اِس عالَم کے کسی انسان کا والد بھی نہیں ہے اِس لیئے اِس عالَمِ خلق میں اُس کا کوئی ہمسر بھی نہیں ہے ، قُرآن کے اِس مضمونِ کلام کی ترتیبِ کلام کے مطابق اِس سُورت سے پہلے سُورَةُالکافرون میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو اُس کی سُنی بات کو اَن سنی کرنے والے حق گریز لوگوں کو کُچھ سنانے کے بجاۓ کُچھ نہ سنانے کا جو حُکم دیا تھا اور اُس حُکم کے بعد جو وقفہِ سکوت آیا تھا تو اُس وقفہِ سکوت کے سکوت کے دوران جن اہلِ دل کے دل میں آپ پر نازل ہونے والے کلامِ وحی کو سننے کا جو جذبہِ اشتیاق پیدا ہوا تھا اور اُس جذبہِ اشتیاق کے نتیجے میں اُن تشنگانِ ایمان کے جو جوق دَر جوق قافلے اپنے ایک والہانہ شوقِ وارفتگی میں آپ کی طرف بڑھے تھے اور اُن تشنہ لَب قافلوں کو اِس محدُود وقت کے درمیان قُرآن کی جو لا محدُود تعلیم دی تھی اُس کو قُرآن کی اِس مُختصر سی سُورت میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اُن تشنگانِ ایمان کے جو جوق در جوق قافلے آپ کے پاس آۓ تھے اور اُس وقت اُن قافلوں کے ذہنوں میں اُس وقت کے اعتبار سے اُن کے شرک کی جو تفصیل موجُود تھی اُس تفصیل کے مطابق اُس زمانے میں شرک کی ایک قسم تو یہ تھی کہ اُس زمانے کے وہ لوگ ایک زندہ خُدا کے زندہ اَحکام پر عمل کرنے کے بجاۓ اپنے کسی پسندیدہ زندہ انسان و حیوان کی پُوجا کیا کرتے تھے جو اُن کے اُس شرک کی پہلی بدترین قسم تھی اور جب اُن کے اُس پُوجے جانے والے زندہ انسان و حیوان کو اللہ تعالٰی طبعی موت دے دیتا تھا تو وہ اندھے مُشرک یہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد اُن کا وہ پُوجا جانے والا انسان و حیوان اللہ سے زیادہ قریب ہو گیا ہے اور اللہ سے زیادہ قریب ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ اُن کی حاجت روائی اور مُشکل کشائی کرنے کے قابل ہو گیا ہے اور جب اُن کے ذہن میں اُس مُردہ انسان و حیوان کی صورت کُچھ دُھندلانے لگتی تھی تو وہ اُس کی ایک مُورت بنا کر اُس مُورت کی پُوجا شروع کر دیتے تھے ، شرک اِن تمام صورتوں کو اُن نو مُسلم قافلوں کے ذہنوں سے محو کرنے کے لیئے قُرآن نے اِس سُورت میں اللہ کی جو چار صفات اَحد و صمد اور لم یلد و لم یُولد بیان کی ہیں وہ تَشریک کے اِس عقیدے کی نفی کرتی ہیں جس عقیدے کے تحت اُن اہلِ شرک نے کسی زندہ و مُردہ انسان و حیوان کو اللہ تعالٰی کے اقتدار و اختیار میں شریکِ اقتدار و اختیار بنایا ہوا تھا اور اللہ تعالٰی کی یہی صفات توحید کے اُس عُقدے کو بھی اُجاگر کرتی ہیں جس عُقدے سے جہاں ایک طرف اللہ تعالٰی کی توحید کا اِثبات ہوتا ہے تو دُوسری طرف شرک کی اُن تمام اَقسام کی بھی نفی ہو جاتی ہے جو اَقسامِ شرک اُس زمانے کے اُن لوگوں میں رچی بسی ہوئی تھیں ، اِس سُورت کی اِس ترتیبِ کلام کی رُو سے اِس سُورت کی پہلی اٰیت اللہ تعالٰی کی توحید کی تعلیم دی گئی ہے تو اِس کی دُوسری اٰیت میں یہ اَمر واضح کیا گیا ہے کہ اِس توحید کی رُو سے عالَم کا جو مُفر و مُجرد خالق ہے وہ اپنے کسی کام میں اپنی حادث مخلوق کے کسی فرد کا محتاج نہیں ہے اور مخلوق کا ہر حادث فرد اُس قائم بالذات و دائم بالذات خالق کا مُحتاج ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خالقِ عالَم اپنے وجُودِ ذات میں ہی اَحدیت کا حامل نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اختیارِ ذات میں بھی احدیت کا مالک ہے ، اِس اعتبار سے اِس سُورت کی پہلی دو اٰیات میں خالق کے مُختار اور مخلوق کے مُحتاج ہونے کی جو تعلیم دی گئی ہے اِس سُورت کی دُوسری دو اٰیات میں اُس تعلیم کے بر حق ہونے کے حق میں یہ دلیل دی گئی ہے جو مخلوق اپنا سلسلہِ نسب قائم کرنے کے لیۓ اپنے والد کی اور اپنا سلسلہِ نسل چلا نے کے لیئے اپنی اولاد کی مُحتاج ہوتی ہے وہ مخلوق ہر اعتبار سے ایک مُحتاج و بے اختیار مخلوق ہے اور خالق کی جو ہستی والد و اَولاد کی مُحتاج نہیں ہے وہی ہستی اپنی ذات میں وہ مُکتفی ہستی ہے ، اِس سُورت کی اِس تعلیمِ توحید کی رُو سے خالق کی ہستی اپنی بلند سطح سے اُتر کر مخلوق کی سطح پر نہیں آتی اور اُس کی کوئی مخلوق اپنی کم تر سطح سے اُبھر کر اُس عالی ذات کی عالی سطح تک نہیں جا سکتی اِس لیۓ اُس کے اِس عالَم میں کوئی بھی اُس کا ہمسر نہیں ہے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462159 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More