قریش کے کوہِ ایلاف میں پہلا شگاف !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُاللھب ، اٰیت 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
تبت
یدا ابی لھب
و تب 1 مااغنٰی
عنه مالهٗ وما کسب 2
یصلٰی نارا ذات لھب 3 و
امراتهٗ حمالة الحطب 4 فی
جیدھا حبل من مسد 5
قریش کے ایلاف میں پہلا شگاف ڈالنے والا فتنہ سامان سردار جب اپنے فتنے کے شعلوں کے ساتھ اپنے بناۓ ہوۓ شگاف میں ڈال دیا جاۓ گا تو اُس کا مال و منال اور کسبِ کمال اُس کو ہر گز نہیں بچاۓ گا اور تُم دیکھوں گے اُس کی حُکمرانی کا سامانِ خواب بھی اُس کے ساتھ اُس شگاف میں دفن ہو جاۓ گا یہاں تک وہ اسی طرح جلتا ہوا اُس آتشِ جنہم میں پُہنچ جاۓ گا جہاں پر اُس کی مغرور گردن میں دائمی عذاب کی ایک مضبوط رَسا ڈال دیا جاۓ گا !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا جن پہلی پانچ سُورتوں کے ساتھ معنوی تعلق ہے اُن میں سے اِس سُورت کا زیادہ تعلق اُس سُورَةُالقریش کے ساتھ ہے جس کا دُوسرا نام { ایلاف } ہے اور جس کا مفہوم آلِ قریش کی آلِ قریش کے ساتھ وہ باہمی اُلفت ہے جس باہمی اُلفت کے تحت آلِ قریش کے سارے قبیلے اپنے خونی رشتوں کی جان و مال کی حفاظت کیا کرتے تھے اور آلِ قریش کا یہی وہ رائج قومی رواج تھا جس رائج قومی رواج کے تحت وہ اختلافِ مذہب و ملّت کے با وجُود بھی سیدنا محمد علیہ السلام کی جان و مال کی حفاظت کے پابند تھے لیکن عبد العُزٰی آلِ قریش کا وہ پہلا نامُراد مرد تھا جس نے قریش کے اِس قدیم قومی رواج کے خلاف چلتے ہوۓ اپنے حقیقی بھائی عبد اللہ کے بیٹے محمد بن عبداللہ کی زبان سے دعوتِ حق کی پہلی آواز سنتے ہی کہا تھا کہ { تبالک الھٰذا جمعتنا } تیرا ستیا ناس ہو جاۓ ، تُونے اپنی یہی باتیں سنانے کے لیئے ہمیں اِس دامنِ کوہ بلا یا تھا ، پھر ایک موقعے پر اُس نے آپ سے پُوچھا تھا کہ اگر میں تُمہارے اِس دین کو قبول لوں تو اِس سے مُجھے کیا ملے گا جس پر آپ نے فرمایا تھا کہ تُجھے بھی وہی ملے گا جو دُوسرے لوگوں کو ملے گا جس پر اُس نے جَل بُھن کر کہا تھا کہ { تبا لھٰذا الدین ان اکون وھٰٓؤلاء سواء } ستیا ناس ہو تیرے اُس دین کا جس دین میں تیرے سارے لوگ میرے برابر ہو جائیں اور اِس روز کے اِس مکالمے کے بعد عبدالعُزٰی آپ کا ایسا دشمن بن گیا تھا کہ جو آپ کو تکلیف دینے یا نقصان پُہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا ، عُلماۓ روایت کے تابعِ مُہمل عُلماۓ تفسیر نے اِس سُورت کی اِس اٰیت کا یہ مجہول ترجمہ کیا ہے کہ { ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائئں } لیکن یہ عُلماۓ روایت یہ نہیں جانتے کہ اِس اُسلُوبِ کلام کی اِس ترتیبِ کلام کے درمیان میں جب بھی یہ محاورہ بولا جاتا ہے تو یہ محاورہ بولنے والے کے ذہن میں اِس جُملے سے پہلے یہ دُعائیہ جُملہ بھی موجُود ہوتا کہ خُدا کرے کہ فلاں کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اِس لیۓ جب عبد العُزٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کے بارے میں یہ جُملہ بولا تھا تو ظاہر کے اُس کے ذہن میں اپنا معبُود عُزٰی یقیناً موجود تھا اِس لیۓ یہ بھی ظاہر ہے کہ عُلماۓ روایت جب یہی الفاظ خدا کی ذات کے ساتھ منسوب کرتے ہیں تو اِس کا مطلب بھی یہی ہو تا ہے کہ ہمارے خُدا کے اُوپر کوئی دُوسرا وہ خُدا بھی موجُود ہے جس خُدا کے سامنے ہمارا خدا ابو لھب کے لیئے اپنی یہ بَد دُعا پیش کر رہا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اِس اٰیت کے اِن الفاظ میں ہمارا خُدا کسی دُوسرے خُدا کے سامنے کوئی بَد دُعا پیش نہیں کر رہا ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کو اُس دشمنِ دین کے بارے میں وہ اطلاع فراہم کر رہا ہے جس اطلاع کا ہم نے مَتنِ اٰیات کے زیرِ مَتن مفہوم میں ذکر کیا ہے ، اِس سُورت کی اِس پہلی اٰیت کا پہلا وضاحت طلب لفظ { تبت } ہے جس کا معنٰی کسی چیز کا ٹوٹنا ہوتا ہے ، اِس اٰیت کا دُوسرا وضاحت طلب لفظ { ید } ہے جس کا معنٰی اگرچہ ہاتھ ہے لیکن اُسلوبِ کلام میں ہاتھ سے مُراد کبھی بھی ہاتھ کی شکل نہیں ہوتی بلکہ ہمیشہ ہی ہاتھ کی وہ عملی قُوت مُراد ہوتی ہے جو قُوت ہاتھ کی حرکتِ عمل سے پیدا ہو کر ظاہر ہوتی ہے ، اِس سُورت کا تیسرا وضاحت طلب لفظ { لَھب } ہے جس کے مِن جُملہ معنوں میں سب سے موزوں معنٰی پہاڑ میں شگاف ڈالنا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبدالعُزٰی کی اِس اندھی دین دشمنی نے آلِ قریش کے باہمی التفات کے اُس پہاڑ میں شگاف ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے آلِ قریش کے پیر و جواں اپنے اُس قانونِ التفات کو فراموش کر کے سیدنا محمد علیہ السلام اور اَصحابِ محمد علیہ السلام کے دشمن بن گۓ تھے اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اپنے اِس کلام میں اہلِ ایمان کو یہ اطلاع دی ہے کہ عبدالعُزٰی نے التفات کے جس قدیم پہاڑ میں شگاف ڈالا ہے وہ خود ہی اِس شگاف میں اُترنے اور اِس سے گزرنے کے بعد اُس نارِ جہنم میں پُہنچنے والا ہے جس کا وہ مُستحق ہے ، اِس سُورت کا جو چوتھا وضاحت طلب لفظ ہے وہ { امرات } ہے جس کا اطلاق اُس کم زور عورت پر بھی ہوتا ہے جس پر مرد حکمرانی حاصل کر چکا ہوتا ہے یا حکمرانی حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اِس کا اطلاق اُس قوم پر بھی ہوتا ہے جس پر اُس قوم کا کوئی مرد حکمرانی حاصل کر لیتا ہے یا اُس پر حکمرانی حاصل کرنے کی آرزُو رکھتا ہے اور اِس مقام پر ابو لھب کی اپنی قوم پر حاصل کی گئی وہ حکمرانی مُراد ہے جو جس حدتک اُس کو حاصل ہو چکی تھی وہ اُس حد کی آخری حد تک اپنی حکمرانی کا خواب دیکھ کر رہا تھا لیکن سیدنا محمد علیہ السلام کے اعلان نبوت نے اُس کے اُس خواب کو چکنا چُور کردیا تھا لیکن آپ کے اعلانِ نبوت کا اہلِ مکہ پر آہستہ آہستہ اثر بھی ہو رہا تھا اور یہی وہ اَثر تھا ابو لھب کو مُستقل طور پر بے چین کیئے ہوۓ تھا کیونکہ انسانی مزاج میں یہ خرابی ہے کہ ایک باپ کے سوا دُنیا کا کوئی بھی انسان اپنے کم عمر کو بڑے ہو کر اپنے برابر آتے نہیں دیکھ سکتا اور جو نوجوان جس بزرگ کے برابر آنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ بزرگ اُس کو دیکھ کر جَل بُھن جاتا ہے اور جب برابری کی سطح پر آنے والا ایک یتیم بھی ہو تو اُس بڑے انسان کی قلبی جلن اور بھی شدید ہوجاتی ہے اِس لیئے اِس سُورت کی اِن اٰیات میں اللہ تعالٰی نے ابو لھب کی قلبی جلن کو جہنم کی جلن قرار دے کر یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ حق کا وہ دشمن اپنی اسی جلن کے ساتھ جلتا ہوا سیدھا جہنم میں جاۓ گا جو اُس کا اَبدی ٹھکانا ہے ، اِس سُورت کا پانچواں وضاحت طلب لفظ { حمالة } ہے جس کا معنٰی انسان کا اپنے جسم پر کوئی بوجھ اُٹھاۓ ہوۓ ہونا ہے اور عورت کو بھی اسی بنا پر حاملہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم میں اپنے بچے کے وجُود کا بوجھ اُٹھاۓ ہوۓ ہوتی ہے اور اِس مقام پر اِس سے مُراد ابو لھب کے دل و دماغ پر چھایا ہوا حرصِ حکمرانی کا وہ لا حاصل بوجھ ہے جو بوجھ ابو لھب اپنے دل و دماغ پر اُٹھاۓ ہوۓ پھر رہا تھا اور پھر یہی بوجھ اُٹھا کر اسی طرح پھرتے پھرتے ہی مر گیا تھا اور اِس سُورت کا ساتواں وضاحت طلب لفظ { حطب } ہے جو دھکتی آگ میں پڑی ہوئی چیز یا دھکتی آگ سے جلی ہوئی چیز کے لیئے بولا جاتا ہے اور اِس مقام پر اِس سے مُراد ابو لھب کا وجُود ہے جو جہنم میں جانے سے پہلے ہی جَل رہا ہے اور حقیقت یہ ہے اِس کردار کے جتنے بھی لوگ زمین پر گزر چکے ہیں وہ سارے ہی اپنی ذات میں ابو لھب تھے اور اِس کردار کے مزید جتنے بھی لوگ اِس زمین سے گزریں گے وہ سارے اپنی زمین اور اپنے زمانے کے ابو لھب ہوں گے ؏

یہ طُور وہی یہ نیل وہی تاریخ کی ہے تمثیل وہی

تَمہید وُہی تَکمیل وُہی کردار وُہی ہیں نام جُدا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 465260 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More