عالَم خلق کی تَخلیقِ ثانی = BigBangg

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالفلق ، اٰیت 1 تا 5 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
اعوذ برب
الفلق 1 من
شر ماخلق 2
ومن شر غاسق
اذا وقب 3 ومن شر
النفٰثٰت فی العقد 4 ومن
شر حاسد اذا حسد 5
اے ہمارے رسول ! اہلِ زمین کو بتا دیں کہ میں اپنے اُس پالنہار کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں جس نے ایک دھماکے سے اپنا ایک جہان مٹایا ہے اور اپنا ایک جہان بنایا ہے ، میں اُس کے اِس مُثبت تَخلیقی عمل کے ہر مَنفی رَدِ عمل کے مَنفی خطرات سے بچنے کے لیئے بھی اپنے اُس پالنہار کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں ، میں گُپ رات کے گُپ اندھیرے میں ٹُوٹ کر بکھرنے والے اُن آتش فشاں تاروں کی آتش فشانی سے بچنے کے لیئے بھی اُس کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں جو شب بھر فضا میں فنا ہوتے نظر آتے ہیں اور میں اُن جلنے والے تاروں کی جلن سے جل کر فنا ہونے والے تاروں کی آتش فشانی سے بچنے کے لیئے بھی اپنے اُس پالنہار کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا پہلا لفظِ { قُل } قال یقول کے افعال سے بننے والا اَمر حاضر کا صیغہ ہے اور اَمر حاضر کے اِس صیغے کے ذریعے انسان کو قُرآن میں جو با مقصد و با معنی اَحکام دیئے گۓ ہیں اُن کی تفصیل گزر چکی ہے ، اِس سورت کا جو دُوسرا لفظ { اعوذ } ہے وہ عاذ یعوذ کے افعال سے بننے والا واحد مُتکلّم فعل مضارع کا صیغہ ہے جس کے ذریعے انسان اللہ تعالٰی سے اللہ تعالٰی کی پناہ میں آنے کی وہ عاجزانہ استدعا کرتا ہے جس عاجزانہ استدعا کا انسان کو پہلے قُرآن کی پہلی سُورت الفاتحة کی پہلی اٰیت { اعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم } میں حُکم دیا گیا ہے اور قُرآن کی اِن آخری دو سُورتوں میں بھی اُسی حُکم کا اعادہ کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قُرآن کا آغازِ کلام بھی اللہ تعالٰی کی پناہ سے ہوتا ہے اور قُرآن کا اَنجامِ کلام بھی اللہ تعالٰی کی پناہ پر ہی ہوتا ہے اور اِس آغاز و اَنجام کے درمیان اللہ کا جو کلام آیا ہے وہ اللہ تعالٰی کی پناہ میں آنے اور اللہ تعالٰی کی پناہ میں رہنے کا وہ علمی و عملی طریقہ ہے جس علمی و عملی طریقے کو اختیار کر کے انسان اُس خالقِ عالَم کی پناہ آتا ہے اور اُس کی پناہ میں رہتا ہے ، قُرآنِ کریم نے جن سات مقامات پر تعوذ کی اِس تعلیم کا ذکر کیا ہے اُن سات مقامات میں سے پہلا مقام سُورَةُالبقرة کی اٰیت 67 ہے جس میں مُوسٰی علیہ السلام نے جہالت سے پناہ پانے کے لیئے اپنی اُمت کو اِس تعوذ کی ترغیب دی ہے ، تعوذ کی اِس تعلیم کا دُوسرا مقام سُورَہِ ھُود کی اٰیت 47 ہے جس میں نُوح علیہ السلام نے انسان کو اِس تعوذ کی تلقین کی ہے ، تعوذ کی اِس تعلیم کا تیسرا مقام سُورَہِ مریم کی اٰیت 18 ہے جس میں سیدة مریم نے انسان کو شیطان سے بچ کر رحمٰن کی پناہ میں آنے کے لیئے اس تعوذ کی تلقین کی ہے ، تعوذ کی اِس تعلیم کا چوتھا اور پانچواں مقام قُرآن کی سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 97 اور اِس کی اٰیت 98 ہے جہاں پر اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام کو اسی حُکمِ قُل کے ساتھ شیطان کے فتنہ و شر سے بچنے کے لیۓ اس تعوذ کی تلاوت کی تلقین کی ہے اور تعوذ کی اِس تعلیم کا چھٹا اور ساتواں مقام قُرآن کی اِن دو آخری سُورتوں کا یہ آخری مقام ہے جس مقام پر اِس کتاب کی آخری پہلی سُورت میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو جن چیزوں کے فتنہ و شر سے بچنے کے لیئے اپنی پناہ میں آنے اور اپنی پناہ میں رہنے کی ترغیب دی ہے اُن میں پہلی چیز وہ واقعہِ { فلق } ہے جس کے نتیجے میں اِس عالَمِ خلق کی تَخلیقِ اَوّل کے بعد وہ تخلیقِ ثانی ہوئی ہے جس کے بعد ایک سابقہ جہان برباد اور ایک موجُودہ جہان آباد ہوا ہے ، اِس عالَم کی اِس تخلیقِ ثانی کے اِس تخلیقی عمل کا اِس عالَم میں جو مُثبت عمل ظاہر ہوا ہے تو اِس کا ایک مَنفی رَدِ عمل بھی رُونما ہوا ہے اور اُس مَنفی رَدِ عمل کے نتیجے میں اِس عالَمِ خلق میں سُورج و چاند اور سیاروں ستاروں کی صورت اختیار کر کے جو چیزیں فضاۓ بسیط میں مُتحرک بالتحریک ہوئی ہیں اُن چیزوں کے متوقع باہمی ٹکراؤ سے پیدا ہونے والے تصادم کے صدمے سے بچنے کے لیئے اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو اور اپنے رسول کے ذریعے اِس جہان کے تمام انسانوں کو اُن چیزوں کے باہمی ٹکراؤ کے متوقع خطرات سے خود بچنے اور دُوسرے انسانوں کو بچانے کی ایک مؤثر تعلیم دی ہے ، فلق کا معنٰی وہی دھماکا ہے جس کو جدید علم نے اُس BigBingg کے ایک تاریخی نام سے مُتعارف کرایا ہے اور اُن اہلِ علم نے اپنی محدُود علمی بساط کے مطابق اِس عالَمِ خلق کے قائم رہنے کا 15 ارب سال قائم رہنے کا جو مجموعی دورانیہ بتایا ہے اُس میں سے 4.6 برس اِس سے پہلے گزر چکے ہیں اور 5۔5 برس آنے والے زمانوں میں اِس عالَم پر گزرنے ہیں ، قُرآنِ کریم نے اِن دو سُورتوں کے اِن دو مضامین میں انسان کو اِس اَمر کی تعلیم دی ہے کہ آنے والے اِن زمانوں کی جس مُدت میں جو انسان اِس عالَمِ خلق میں موجُود رہیں گے اُن کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی ہوگی کہ اُن کو شب کے اندھیرے میں جو تارے فضاۓ عالَم میں اُڑتے نظر آتے ہیں وہ اِس فضاۓ عالَم کے دُور دراز مقامات پر اپنے اپنے مقامات پر ٹوٹ کر بکھرنے والے وہ تارے ہیں جن کے ٹوٹنے کا عمل جتنا قابلِ یقین ہوتا ہے اتنا ہی اُن تاروں کے پہاڑ نما ٹکڑوں کا اِس زمین سے ٹکرانے کا بھی ایک امکان موجُود رہتا ہے جس امکان کو وہ خُدا ہی اپنے اُس علم و کمال سے ٹال سکتا ہے جو علم و کمال وہ ہر زمانے کے انسان کو اُس کی ذہنی بساط اور اُس کی زمینی ضرورت کے مطابق دیتا رہتا ہے اور انسان اُس علم و کمال سے اُن فضائی آفات کو فضا سے اُتر کر زمین پر آنے سے روک سکتا ہے اِس لیئے انسان کو اُس علم کے حصول کے لیئے ہمہ وقت تیار ہونا اور تیار رہنا چاہیۓ تاکہ وہ اِن آسمانی و زمینی خطرات سے جس حد تک بچ سکتا ہے اُس حد تک بچتا رہے ، اگر اللہ تعالٰی نے انسان کو یہ علم و کمال نہ دیا ہوتا یا نہ دینا ہوتا تو اِس عالَمَ خلق میں ہونے والے اِن خطرات و خدشات کا اِس کتابِ عظیم میں ذکر بھی نہ کیا جاتا اور اگر اللہ تعالٰی نے اِن خطرات و خدشات کا اپنی اِس کتاب میں ذکر کیا ہے تو یہ ذکر بذاتِ خود ہی اِس اَمر کی ایک تعلیم و ترغیب ہے کہ انسان اپنی عقل سے اپنی زمین پر وہ تمام علمی و عملی ذرائع حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے جو علمی و عملی ذرائع اُس کی حفاظت کا سامان بنیں اور اُس کی اِس زمین پر آنے والے تمام زمانی و مکانی خطرات سے اِس کی زندگی کو محفوظ سے محفوظ تر بناتے رہیں ، اِس سُورت میں دُوسرا وضاحت طلب لفظ { غاسق } ہے جو فعل غسق کا اسمِ فاعل ہے اور جس کا معنٰی گُپ رات کا گُپ اندھیرا ہوتا ہے ، اِس سُورت کا تیسرا وضاحت طلب لفظ { وقب } ہے جس معنٰی اُس گُپ اندھیرے کا اِس عالَم پر چھا جانا ہے ، اِس سُورت کا چوتھا تشریح طلب لفظ { نفٰثٰت } ہے جس کا معنٰی چیزوں کی حرکت سے اُن چیزوں کے اَطراف میں ہوا کا پیدا ہونا ہے اور اِس سُورت کا پانچواں توضیح طلب لفظ { العقد } ہے جس کا مصدر عقد ہے اور جس کا معنٰی اُن تاروں کا اُن تند و تیز ہواؤں کے دائروں میں مُسلسل چلنا ہے جن تاروں کا اِس سے پہلے ذکر ہوا ہے اور اِن لُغات کا اجتماعی مفہوم مِتنِ اٰیات کے تحت آچکا ہے ، اِن دو سُورتوں کا خلاصہِ کلام یہ ہے کہ پہلی سُورت میں قُرآن نے اِس عالَمِ خلق کی جس تخلیقِ ثانی کی دھماکا خیز خبر دی ہے اُس خبر کا قرینہ پہلی سُورت کا لفظ فلق ہے اور دُوسری سُورت میں اِس عالَمِ خلق کے ایک مقررہ مُدت تک قائم رہنے کی جو خبر دی ہے اُس سُورت کی اُس خبر کا قرینہ اُس میں وارد ہونے والا لفظ { خناس } ہے لیکن اہلِ روایت کے روایتی جادو گروں نے قُرآن کی اِن آخری سُورتوں کے اِن آخری مضامین کو رسول اللہ پر ہونے والے اپنے اُس وہمی و خیالی جادُو سے جوڑ دیا ہے جس جادو کا اِن کے تاریک ذہن سے باہر کوئی وجُود ہی نہیں ہے لیکن اِس موضوع کی یہ آخری بات ہم اِس کتاب کی آخری سُورت میں کریں گے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462029 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More