|
|
شادی پوری زندگی کا فیصلہ ہوتا ہے اور اگر کسی بھی ایک
فریق کو یہ محسوس ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے تو دنیا کا ہر قانون راستے تبدیل
کرنے کا اختیار دونوں فریقوں کو دیتا ہے اور ایسا کسی بھی صورت ممکن نہیں
ہے کہ کسی ایک فریق کو زبردستی اس کی مرضی کے خلاف رہنے پر مجبور کیا جائے- |
|
مگر قانون کی ناک موم کی ہوتی ہے جس کو اکثر اوقات پیسے
والے اور طاقتور افراد اپنی جانب اپنی مرضی سے موڑ لیتے ہیں یہ ایک ایسی
صورتحال ہوتی ہے جو کسی بھی شخص کو شدید مسائل سے دوچار کر دیتی ہے- |
|
شوہر سے
باقاعدہ علیحدگی کی کوشش اور عدالت کی تاخیر |
کچھ دن قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے عائشہ نامی
خاتون نے اپنی کہانی شئير کی جس نے عدالتی نظام پر نہ صرف سوال اٹھا دیے
بلکہ اکیسویں صدی میں بھی جب کہ عورت ہر طرح کی مساوات کی دعویدار ہے اس کے
اسٹیٹس پر سوال اٹھا دیے- |
|
ان خاتون کا تعلق ہندوستان سے ہے ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے گھر سے
تعلق رکھتی تھیں جہاں پر ان کے والدین اور ان کے چار بہن بھائی رہتے تھے وہ
سب سے چھوٹی ہونے کے سبب سب کی محبت اور توجہ کا مرکز تھیں شادی کی عمر کو
پہنچنے پر 2009 میں جب ان کی عمر 22 سال تھی- ان کے گھر مشتاق نامی ایک
نوجوان کا رشتہ آیا جو امریکہ میں سافٹ وئير انجینئير کے طور پر کام کر رہا
تھا اور انتہائی امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ جس پر قدرتی طور پر اس کے
والدین نے اتنے اچھے رشتے کو دیکھتے ہوئے ہاں کر دی- لیکن منگنی کے ایک
ہفتے بعد ہی اس کے گھر والوں نے جہیز میں گاڑی کا مطالبہ کر ڈالا جس نے اس
لڑکی کے گھر والوں کو شش و پنچ میں مبتلا کر دیا اور انہیں محسوس ہوا کہ ان
کو ایسے لالچی لوگوں میں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دینا چاہیے- |
|
منگنی سے شادی تک کا سفر |
پہلے گاڑی کے مطالبہ کے بعد مشتاق نے عائشہ کے گھر والوں سے رابطہ کیا اور
ان کو یقین دلایا کہ ان کو کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے اور وہ صرف عائشہ
سے شادی کے خواہشمند ہیں- ان کے اس عمل نے عائشہ کے گھر والوں کے دل میں ان
کی قدر و منزلت بڑھا دی اور انہوں نے ہر برے خیال کو دل سے نکال کر شادی کے
انتظامات کرنے شروع کر دیے- |
|
|
|
مگر اس کے بعد ایک بار پھر مشتاق کے گھر والوں نے اپنے
امیر رشتے داروں کو دکھانے کے لیے انتہائی عالیشان شادی کا مطالبہ کر ڈالا
جس کو افورڈ کرنا عائشہ کے گھر والوں کے بس سے باہر تھا
مگر اس بار مشتاق نے سب جاننے کے بعد فوری شادی کی درخواست کر دی اور صرف
15 دنوں کے اندر عائشہ کے والدین کی مرضی کے مطابق اس کو رخصت کروا کر لے
گیا- |
|
شادی کے بعد کی آزمائشیں |
اپنے دلوں میں لاکھوں ارمان اور خواب لیے جب عائشہ مشتاق
کے گھر پہنچی تو اس سے محبت کرنے والے مشتاق کا ایک نیا روپ اس کا منتظر
تھا جس کو اس بات سے شکایت تھی کہ عائشہ کے والدین نے ایک سال تک اس کی
شادی کو لٹکائے کیوں رکھا اور مشتاق جیسے رشتے کو انکار کرنے کا سوچا شادی
کے بعد پہلی بار مشتاق نے جہیز میں کم سونا ملنے پر عائشہ کو رات کی تاریکی
میں گھر سے باہر نکال دیا- جس پر جب عائشہ میکے جانے لگیں تو اس کے سسرال
والوں نے اس کو کہا کہ تمھارا دل کا مریض باپ یہ سب برداشت نہیں کر پائے گا
کہ اس کی بیٹی طلاق لے کر آگئی ہے اس وجہ سے برداشت کرو- |
|
مگر اس کے بعد مشتاق کا حوصلہ بڑھ گیا اور اس نے عائشہ
کے ساتھ مار پیٹ بھی شروع کر دی یہاں تک کہ ایک دن دوپٹہ عائشہ کے گلے میں
ڈال کر اس کا دوسرا کونا پنکھے میں لگا کر پنکھا تک چلا دیا کبھی آدھی رات
کو گاڑی سے اتار کر سڑک پر چھوڑ دینا کبھی دنیا کے سامنے مار پیٹ کرنا
مشتاق کا وطیرہ تھا- اور ہر جھگڑے کے بعد وہ مہنگے تحفے دے کر اور گھمانے
لے جا کر سمجھتا کہ سب ٹھیک ہو گیا ہے اور اس سب کے بعد عائشہ کو زبردستی
مسکرانے پر مجبور کرتے ہوئے کہتا کہ سب بھول جاؤ- |
|
اولاد کی خوشی
کا قاتل |
عائشہ یہ سب کچھ یہ سوچ کر برداشت کرتی رہیں کہ
ایک نہ ایک دن اولاد ہونے کے بعد مشتاق تبدیل ہو جائے گا اور جب ان کو یہ
خوشخبری ملی کہ وہ امید سے ہیں تو ان کو لگا سب تبدیل ہو جائے گا- مگر حمل
کے شروع کے دنوں میں بھی مشتاق کے ظلم برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ان
کے گھر والوں کے ظلم بھی برداشت کرنے پڑے اور سارے گھر کے کاموں کے سبب
ڈاکٹر کے بیڈ ریسٹ کی ہدایات کے باوجود ان کا پہلا بچہ ضائع ہو گیا- |
|
دوسرے بچے کی
خوشی |
شادی کے چار سال بعد بالآخر عائشہ ماں بننے کے
قابل ہو سکیں تو ان کو لگا کہ ان کی تکالیف میں کمی واقع ہو گی مگر مشتاق
کا رویہ ابھی بھی ویسا ہی تھا بلکہ اب تو اس کے ظلم کا شکار ان کا معصوم
بیٹا شاہران بھی بننے لگا جس کو ایک بار رونے پر مشتاق نے اٹھا کر فرش پر
پھینک دیا- |
|
دنیا کے سامنے تشدد |
عائشہ کا کہنا تھا کہ شاہران کی دوسری سالگرہ کے موقع پر جب منعقد کی گئی
تقریب میں انہوں نے کیک پر لگیں موم بتیاں کیمرے کو سیٹ ہونے سے پہلے
بجھائیں تو اس پر مشتاق نے ان کو سب کے سامنے پیٹ ڈال-ا جس کے بعد انہوں نے
تنگ آکر سب کے سامنے مشتاق سے طلاق کا مطالبہ کر دیا جس کے بعد مشتاق بالکل
حیوان بن گیا اور اس نے عائشہ کو آدھی رات میں ایک سنسان جگہ پر چھوڑ دیا
اور خود آرام سے گھر آگیا- |
|
|
|
شادی کے چھ سال
بعد طلاق کا فیصلہ |
اس واقعہ کے بعد عائشہ نے جب اس تمام صورتحال
سے اپنے والدین کو آگاہ کیا تو انہوں نے اس کو مشتاق سے علیحدگی اختیار
کرنے کا مشورہ دیا اور عائشہ اپنے بیٹے شاہران کے ساتھ میکے آگئيں اور
انہوں نے شادی کے چھ سال بعد مشتاق کے خلاف طلاق کا کیس فائل کر دیا- |
|
کیس کرنے کے
سات سال بعد بھی طلاق سے محروم |
مشتاق چونکہ پیسے والا ہے تو اس نے اپنے پیسے
کا عائشہ سے بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا طلاق کے کیس کے جواب میں اس نے
عائشہ کے گھر والوں کے خلاف کیس کر کے ان کو جیل میں ڈلوا دیا-
طلاق کے کیس کو الجھا کر اس نے بار بار طلاق کے پیپر سائن کرنے سے نہ صرف
انکار کیا بلکہ اس دوران خود دوسری شادی کر لی جس سے اس کی ایک بیٹی بھی
ہے-مشتاق کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر تم میں دم ہے تو طلاق لے کر بتاؤ اور
تمھیں اور تمھاری فیملی کو تو میں دیکھ لوں گا- |
|
سوشل میڈيا کی
کوششوں سے امید |
شاہران کی دوسری سالگرہ کی ویڈيو جس میں مشتاق
نے عائشہ کو سب کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا کسی ذرائع سے سوشل میڈيا پر
چلی اور وائرل ہو گئی جس کے سبب لوگوں کو عائشہ کی بے بسی کا اور سات سال
سے چلنے والے کیس کے حوالے سے آگاہی ہوئی اور لوگوں نے اس حوالے سے آواز
اٹھانی شروع کر دی- مگر تاحال عائشہ اپنے حق کے لیے لڑ رہی ہیں اور اس
لڑائی میں گزشتہ سال اس کے والد بھی کوویڈ کے سبب اس کا ساتھ چھوڑ گئے- اس
حوالے سے عائشہ کا کہنا ہے میں نہیں جانتی کہ مجھے کب انصاف مل سکے گا مگر
میں اپنی آخری سانس تک انصاف کے حصول کے لیے لڑوں گی- |