کسی کو کسی کی پرواہ نہیں !

اتنی بڑی کائنات کو ہم نے اتنا چھوٹا بنا دیا ہے۔۔۔ ہم مٹیریل کی محبت میں گرفتار ہیں۔۔۔ ہم حقیقت میں نہی بلکہ خوابوں میں جیتے ہیں۔۔۔ ہم سب انسان اس دنیا میں ایک دوڑ میں بھاگ رہے ہیں، ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ ۔۔۔ ایک ایسی دوڑ کہ اگر کوئی اس میں گر بھی گیا تو ہاتھ تھامنے والا تک موجود نہیں۔۔۔ جبکہ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ یہ دنیا ایک دوڑ نہیں بلکہ ایک سفر ہے، ایک ایسا سفر جس میں اکیلے چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ، ایسا سفر جس میں ساتھ چاہیے، سب کا ساتھ۔۔۔ جبکہ اس دوڑ میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں سب جیتنے میں لگے ہیں ... لیکن کس سے؟ یہ تو شاید وہ بھی نہیں جانتے۔۔۔

ہر طرف نفسا نفسی ہے۔ ہر کوئی اپنی اور صرف اپنی سوچتا ہے. کوئی تعمیرات میں مصروف ہے پر کردار کی تعمیر کا کیا؟ کوئی مکانات گرانے میں لگا ہے پر دل میں تعمیر بتوں کا کیا؟ کوئی مستقبل کی سوچ میں گم ہے پر موت کے دن کا کیا؟ کوئی رو رہا ہے کوئی ہنس رہا ہے لیکن کوئی یہ نہیں جانتا کہ یہ رونا یہ ہنسنا کس کی طرف سے ہے اور کیوں؟ کوئی دو وقت کی روٹی کے لئے محنت کر رہا ہ تو کوئی نان پاۓ کھا رہا ہے۔۔۔ ایک طرف غریب بچوں کو پڑھانے کی سوچ بھی نہی سکتا تو دوسری طرف امیر کا بچا لکھوں روپوں کی آسائشوں کے مزے لے رہا ہے۔۔۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہیں۔

گھر ہے تو فرنیچر نہیں، فرنیچر ہے تو معیاری نہیں، اور اگر معیاری بھی ہے تو پرانا سمجھ کر تبدیل کرنا ہے۔۔۔ ایک طرف سیلاب، زلزلے، طوفانی بارشیں تو دوسری طرف شیطانی محفلیں، شادیاں ور رقص۔۔۔ کسی کو کسی کی فکر نہہیں۔

کوئی درمیانی آمدن والا شخص اگر غریبوں میں بیٹھ جائے تو خود کو تیس مار خان سمجھ بیٹھتا ہے اور اگر کوئی معمولی پڑھا لکھا شخص جاہلوں میں بیٹھ جائے تو اپنے کمال علم کا مظاہرہ بڑی شان سے کرتا ہے۔۔۔ ہم کیا کر رہے ہیں؟ کسے دھوکا دے رہے ہیں؟

یہاں ہر کوئی بھکاری ہے۔ بھیک مانگنا پیشہ بن چکا ہے۔ کہیں چندے کے نام پر کہیں کسی این جی او کے نام پر، کوئی کہتا ہ میں فلاں ادارہ چلا رہا ہوں، کسی کو کسی کی پرواہ نہیں، کسی کو کسی کی خبر نہیں ہر کوئی صرف اور صرف نام کمانے کے پیچھے لگا ہوا ہے۔۔۔ جس قوم میں لوگ مفاد پرست ہوجاِئیں تو ذلت و روسوائی اس قوم کا مقدر بن جاتی ہے۔۔۔

پچھلے چند سالوں میں میں نے صرف مفاد کی خاطر ہی لوگوں کو مجھ سے بات کرتے پایا۔۔۔ اور اگر مفاد نہ ہو تو دور سے ہاتھ ہلا جاتے ہیں حال بھی نہیں پوچھتے۔۔۔ کسی کو یہ جتاتے سنا کہ میرا بیٹا یا بیٹی فلاں کالج یا یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، میں لاکھوں روپے فیس بھرتا ہوں، مرے پاس لاکھوں کی گاڑی ہے وغیرہ۔۔۔ استاد بچوں کو بتاتے ہیں کہ بیٹا اچھے سے پڑھوگے تو اتنے پیسے کماؤ گے، ویسا گھر بناؤ گے،بڑی گاڑی چلاؤ گے وغیرہ۔۔۔ کوئی کہتا ہے انجنیئر بنو، کوئی کہتا ہے ڈاکٹر بنو۔۔۔ کوئی یہ نہیئ کہتا بیٹا انسان بنو، عزت دار بنو، انسانیت سے پیار کرو، انسانوں کی خدمت کرو ۔۔۔

ایک مرتبہ مجھے اپنے گاؤں کے کسی بزرگ سے ملنے کا موقع ملا۔۔۔ وہ ایجوکیشن آفس سے رٹائیرڑ تھے میں نے سلام کیا، اپنا تعارف کرایا۔۔۔ سلام کے بعد انہوں نے صرف اتنا پوچھا کہ" بیٹا کرتے کیا ہو؟" میں نے کہا" جی میٹرک پاس کیا ہے۔" پوچھا" کتنے نمبر ہیں؟" میں نے جواب دیا "٨٦%" اس پر وہ مسکرۓ اور ایک لڑکے کو آواز دی اس کا تعارف بھی نہیں کرایا ور کہا "دیکھو اس بچے کے ٩٦% ہیں"۔۔۔ میں نے مزید کہنا ہی کیا تھا اس لڑکے کو مبارک باد دی، چاۓ ختم کی اور دل ہی دل میں مسکراتا ہوا وہاں سے رخصت ہو لیا۔۔۔ میں پریشان تھا۔۔۔ یہ سوچ کر نہیں کہ میرے نمبر کم ہیں، بلکہ یہ سوچ کر کہ آج کل انسانوں سے زیادہ نمبروں کی اہمیت ہے۔۔۔

اتنی بڑی کائنات کو ہم نے اتنا چھوٹا بنا دیا ہے۔۔۔ ہم مٹیریل کی محبت میں گرفتار ہیں۔ ہم حقیقت میں نہی بلکہ خوابوں میں جیتے ہیں۔۔۔ ہم سب انسان اس دنیا میں ایک دوڑ میں بھاگ رہے ہیں، ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ۔ ایک ایسی دوڑ کہ اگر کوئی اس میں گر بھی گیا تو ہاتھ تھامنے والا تک موجود نہیں۔ جبکہ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ یہ دنیا ایک دوڑ نہیں بلکہ ایک سفر ہے، ایک ایسا سفر جس میں اکیلے چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ، ایسا سفر جس میں ساتھ چاہیے، سب کا ساتھ۔۔۔ جبکہ اس دوڑ میں کسی کو کسی کی پرواہ نہیں سب جیتنے میں لگے ہیں ... لیکن کس سے؟ یہ تو شاید وہ بھی نہیں جانتے۔

تو آئیے اس دنیا ک سفر کو محبّت ک ساتھ، انسانیت کے ساتھ پورا کریں، بجائے کسی دوڑ میں بھاگنے کے اپنی منزل کی طرف بڑھیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ایک قوم بن کر سب مل کر ترقی کریں۔۔۔ کیوں کہ سب کی پرواہ کرنا ہی خود کی پرواہ کرنا ہے اور سب سے محبت کرنا ہی خود سے محبت کرنا ہے۔۔۔ اس جذبے کے ساتھ جئیں کہ اگر میں زندگی ہوں تو تو بھی زندگی ہے۔ ہر شخص کے اندر خود کو تلاش کریں، سب کی پرواہ کریں، سب کو اپنا بنائیں۔
 

SYED MUNTAZIR
About the Author: SYED MUNTAZIR Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.