اللہ تعالی نے انسانیت کی تخلیق فرما کر لوگوں کو انسانیت
کے رتبے اور مرتبے پر برقرار رکھنے کیلیے انبیاء و رُسل کا انتظام فرما کر
بہت بڑھا احسان کیا۔مختلف اوقات میں قوموں اور امتوں کی اصلاح کیلیے انبیاء
و رسول بھیجتا رہا۔جب بھی انسانیت ضلالت و گمراہی میں مبتلا ھوجاتی اللہ
تعلی اپنی سنت کے مطابق رحم و کرم کا نزول فرماتا اور قوم کی طرف رسول
بھیجتا۔آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے جب ایک بار پھر انسانیت ظلمت و ضلالت
میں ڈھوبی ہوی تھی، ہر طرف اندھیرہ ہی اندھیرہ چھایا ہوا تھا،لوگ انسانیت
کے مرتبے اور عظمت کو بھول چکی تھی، انسانیت اشرف المخلوقات کے مرتبے سے گر
کرچوپائیت اور حیوانیت کے دلدل میں گر چکی تھی بلکہ بے حیایی اور عریانیت
اتنی عروج پر تھی کہ "بل ھم اضل"کے مصداق بن چکی تھی۔اس وقت اللہ تعالی
نےایک بار پھر اپنی رحمت کا نزول فرماکر انسانیت پر آخری مرتبہ اپنا رسول
بھیج کےاپنا احسان جتلا کر فرمایا”لقد من الله علی المومنین اذ بعث فیھم
رسولا“ اور انسانیت کیلیے تاقیامت نمونہ ٹھہرایا ”لقد کان لکم فی رسول الله
اسوة حسنة “
اس کار نبوت میں ایک عظیم کام جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود
یہ فرماکر واضح فرمایا کہ ”بعثنی معلما میسرا“ مجھے آسانی پیدا کرنے والا
معلم بنا کر بھیجا گیا۔بلکہ یہ کام اتنا عظیم ہے کہ خود اللہ تعالی کے معلم
آدم ہونے کی تصریح قران نے فرمایی ”وعلم آدم الاسماء کلھا۔۔۔“
قران نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد جو بیان کیا ھے
وہ ان الفاظ میں آیا ھے”یتلو علیھم آیته ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة“
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم و تربیت کے لیے مبعوث کیا
گیا۔اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کے چار مقاصد
بیان کیے گیے ہیں وہ سب تعلیم و تربیت ہی کی اساس ہے۔معلم کی فضیلت میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کثرت سے نقل ہوے ہیں
جیسے ترمذی میں آیا ہے کہ”إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ
السَّمَوَاتِ وَالأَرَضِينَ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى
الحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الخَيْرَ" یعنی اللہ تعالی
ملائکہ اور آسمانوں اور زمینوں میں بسنے والے تمام مخلوقات حتی کہ سوراخ
میں رہنے والی چونٹی,مچھلی خیر سکھانے والے معلم کے لیے دعائیں
کرتےہیں۔یعنی اللہ تعالی اسے تمام مخلوقات کا محبوب بناتا ہےاور اس کے
خیریت،عافیت اور مغفرت کیلیے دعا کرتے ہیں۔بلکہ ہمارے علماء فرماتے ہیں
”العلم مع العالم مثل الطیب مع صاحب الطیب“یعنی عالم کے ساتھ علم کی مثال
ایسی ہی ہے جیسے عطر کی عطر فروش کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
صاحب المسک کے بارے میں فرماتے ہے ”فحامل المسک,اما ان یحذیک واما ان تبتاع
منہ واما ان تجد منہ ریحا طیبة“ یعنی عطر فروش یا تو تجھے بلا معاوضہ عطر
دیگا,یا تم خریدو گے یا اس کے پاس اچھی بو پاو گے۔یہ حدیث ایک معلم کی طویل
معیت اور صحبت میں رہنے پر دلالت کرتی ہے۔نبوت کے دیگر فرائض کی طرح اس فرض
کو بھی رسول اللہ نے صرف انجام ہی نہیں دیا بلکہ امت کے معلموں اور اساتذہ
کے لیے انگنت رہنما اصول وراثت میں چھوڑ گیے جو نظام تعلیم کو بہتر سے بہتر
تر بنانے میں معاون ثابت ھوسکتے ہیں۔مسلم شریف کی روایت میں آیا هے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم”ان اللہ لن یبعثنی معنتا ولا متعنتا ولکن یبعثنی
معلما میسرا“ کہ مجھے اس لیے نہیں بھیجا کہ لوگوں کے لیے مشکل پیدا کروں یا
یہ چاہوں کہ دوسرے مشکل میں مبتلا ہوں بلکہ(مجھے دوسروں کے لیے ) آسانیاں
پیدا کرنے والا معلم بنا کر بیجھا ھے ۔یعنی ایک استاد کواپنے شاگردوں کے
لیے مشکلیں پیدا کرنے والا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے لیے حصول علم کے
راستے کو آسان بنانا چاہیے ۔کامیاب استاد وہ ھے جو ایک شاگرد اور اس کے
مشکلات کے درمیان حايل ہو کر اس کا محافظ بنے۔استاد کو چاھیے کہ اپنے شاگرد
کو اپنے کردار ،گفتار اور اور اخلاق سے اپنا گرویدہ بنائے ۔جس طریقے
اخلاقیات سے مُحَمَّد صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کو اپنا گرویدہ
بنایا اور اپنی جان و مال دین پر قربان کرنے کے لیے تیار کیا ۔قران میں آیا
ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر آپ کا مزاج بھی سخت ہوتا تو آپ کے
صحابہ کے صحابہ بھی آپ سے منتشر ھوتے جیسے"فبما رحمة من اللہ لنتلھم ولوکنت
۔۔۔۔۔۔"
مُحَمَّد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ تدریس میں یہ خصوصیت بھی تھی کہ وہ
طلباکو ذہنی طورپر علم حاصل کرنے کے لیے اکساتے تھے ۔ ان میں علم کی جستجو
،شوق اور حصول علم کی پیاس پیدا کرنے کے بعد علم منتقل کرتے تھے ۔کسی موقع
پر صحابہ کرام کو فرماتے ،کیا آپ جانتے ہو غیبت کیا ہے ،کیا آپ جانتے ہو
مفلس کون ہے ،کیا آپ جانتے ہو قیامت کب برپا ہوگی ان جیسے الفاظ اور اس
طریقہ تکلم سے صحابہ کرام میں علم کی طلب بڑھ جاتی تھی ۔ بلکہ یہ طریقہ
تعلم قرآن مجید کے اسلوب سے مشابہت رکھتا ہے جیسے”ھل ادلّکم علی تجارة
تنجیکم من عذاب علیم “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ تدریس میں یہ
بھی شامل تھا کہ الفاظ واضع اور شیرین ہوتے تھے جیسے حضرت امّہ معبدؓ کی
روایت کے مطابق وہ فرماتے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیرین بیان تھے
۔اس شیرینی کا یہ نتیجہ تھا کہ شاگردوں میں ”ھل من مزید “ کی کیفیت پیدا
ہوتی تھی۔حضرت عایشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہے”کان کلام رسول
اللہ.........کلاما فصلا یفھمہ کلّ من سمعہ “ (رواہ ابو داود/حسن ).
ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام کلامِ فصل تھا (یعنی ہر لفظ
الگ الگ بیان کرتے تھے۔اور ہر ایک سننے والا سمجھتا تھا )۔اس بیان سے بھی
یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کس درجہ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے
شاگردوں کو علم کے نور سے منورّ کرنے کی کوشش کی۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں
کم إذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کلام کو بعض مرتبہ حسب ضرورت تین مرتبہ
دھراتے تاکہ سامعین آپ کی بات کو اچھی طرح سمجھیں۔بات کرنے کے دوران رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے اور نہایت خندہ پیشانی سے گفتگو فرماتے۔آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا ”یسرو ولا تعسرو“۔کبھی آپ صلی اللہ علیہ
وسلم طلباء کی کیفیت دیکھ کر ایک ہی سوال کیلیے مختلف اوقات پر مختلف
جوابات فرماتے تھے تاکہ وقت جس عمل کو صحابہ میں پیدا کرنے کا تقاضہ کرتا
اسی حساب سے جواب فرماتے جیسے صحابہ کا ”اسلام میں افضل عمل کے بارے میں
سوال کرنا “جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف اوقات پر مختلف
جوابات دینا غور طلب ہے۔
اس معلم اعظم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ٢٣سال اس مسند معلمیت پر بیٹھ
کر ایک جاہلانہ ذہنیت کے گروہ کو (جو امیین کے نام سے مشہور تھی) کو علم کے
نور سے ایسا منور کیا کہ تاقیامت دنیاے انسانیت کے لیے مشعل راہ ٹہرادیے
گیے۔ |