تَخلیقِ عالَم کی قُرآنی آیات اور جادُو گری کی شیطانی روایات !!

#العلمAlilm سُورَةُالناس ، اٰیت 1 تا 6 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
اعوذ برب
الناس 1 ملک
الناس 2 الٰه الناس 3
من شر الوسواس الخناس 4
الذی یوسوس فی الصدور الناس 5
من الجنة والناس 6
اے ہمارے رسول ! آپ سارے اہلِ عالَم کو بتادیں کہ میں اپنے اُسی ایک پالنہار کی پناہ میں رہنا چاہتا ہوں جو اپنے سارے جہانوں کے سارے انسانوں کا وہ ایک ہی پالنہار ہے جس کا اپنے سارے جہانوں کے سارے انسانوں پر اقتدار و اختیار ہے اور جس کے سارے فرمانوں کے اُس کے سارے جہانوں کے سارے انسان پابند ہیں اِس لیئے میں ہمیشہ اپنے اُسی پالنہار سے التجا کرتا ہوں کہ وہ مُجھے اُن سارے وجدانی و رُوحانی اندیشوں سے محفوظ رکھے جو وجدانی و رُوحانی اندیشے انسانی دل میں آتے ہیں اور اپنے مَنفی اثرات چھوڑ کر دل سے جاتے ہیں اور وہ اندیشے اِس جہان کی کُچھ نادیدہ قُوتوں کی طرف سے ہوتے ہیں اور کُچھ پوشیدہ قُوتوں کی طرف سے بھی ہوتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت سے پہلی سُورت میں انسان کو اِس عالَمِ خلق کے اُس عالَم پناہ کے ساتھ مُتعارف کرایا گیا تھا جس عالَم پناہ کے ایک ہی حُکم کُن سے اُس کے ایک موجُود عالَم کا وجُود عدم میں چلا گیا تھا اور اُس کا ایک غیر موجُود عالَم عدم سے وجُود میں آگیا تھا اور عدم سے وجُود میں آنے والے اُس عالَم میں اُس عالَم کی مُثبت قُوتوں کے ساتھ انسان کو نقصان پُہنچانے والی جن بڑی بڑی مَنفی قُوتوں نے جنم لیا تھا اُس سُورت میں اُن مَنفی قُوتوں کی نشان دہی کر کے اُن مَنفی قُوتوں سے بچنے کے لیۓ انسان کو اللہ کی پناہ میں آنے کی تلقین کی گئی تھی ، تَخلیقِ عالَم کے اِس موضوع کی اُس پہلی سُورت کے بعد تَخلیقِ عالَم کے اِس موضوع کی اِس دُوسری سُورت میں انسان کو جن مزید مَنفی قُوتوں سے بچنے کے لیئے اللہ کی پناہ میں آنے کی ہدایت کی گئی ہے اُن مَنفی قُوتوں میں سے ایک مَنفی قُوت { الوسواس } ہے جو اسمِ واحد { وسوسة } کا اسمِ جمع ہے اور اِس اسمِ جمع کا مقصی مفہوم انسانی دل و دماغ آنے اور رہنے والے وہ موہُوم اندیشے ہوتے ہیں جو اندشے انسانی دل میں آتے اور انسانی دل کو ڈراتے ہیں اور انسان اُن اندیشوں کا شکار ہو کر اپنے جادہِ مُستقیم سے بہٹک جاتا ہے ، دُوسری چیز جس کی اِس سُورت میں نشان دہی کی گئی ہے وہ { الخناس } ہے جو اسمِ واحد { خنس } کا وہ اسم جمع ہے جس اسمِ جمع سے فلک کے وہ سیارے مُراد ہیں جو سیارے فضاۓ بسیط میں ایک دُوسرے کا تعاقب کرتے ہوئے ایک ہی وقت میں اپنی اُس تعاقب ریز اور تعاقب گریز اہلیت کے مطابق اِس طرح محوِ سفر رہتے ہیں کہ وہ سیارے کبھی بھی اپنے سے اَگلے سیارے سے زیادہ پیچھے اور اپنے سے پچھلے سیارے سے زیادہ آگے نہیں نکل سکتے بلکہ وہ سارے سیارے اُس متوازن رفتار سے ایک دُوسرے کے آگے اور پیچھے چلتے ہیں کہ اُن کی رفتارِ توازن ایک لَمحے کے لیئے بھی غیر متوازن نہیں ہوتی اور چونکہ اِن سیاروں کے اِس توازن کی تفصیل سُورَةُالتکویر کی اٰیت 15 اور اٰیت 16 میں گزر چکی ہے اِس لیئے اِس پر مزید تفصیل کی حاجت نہیں ہے اور اِس سُورَةُالفلق اور سُورَةُالناس کے بارے میں بھی شاید اتنا ہی عرض کر دینا کافی ہے کہ پہلی سُورت میں { الفلق } کے ذریعے ایک دھماکے کی دھمک سے وجُود میں آنے والے اِس عالمِ خلق کا ذکر کیا گیا ہے اور دُوسری سُورت میں { الخناس } کے اعمالِ خنس و کنس کے ذریعے اِس عالَم کو جس توازن کا حامل بنایا گیا ہے اُس توازن کا خالق جب چاہے گا اُس توازن کو ختم کر کے اُن سارے سیاروں کو ایک دُوسرے سے ٹکراکر تباہ کر دے گا جس کے نتیجے میں اِس عالَمِ خلق کا یہ وجُودِ موجُود دوبارہ تباہ ہو کر دوبارہ عدم میں چلا جائے گا لیکن آغازِ عالَم و اَنجامِ عالَم کے اِس عظیم مضمون کی حامل اِن عظیم سُورتوں کو اہلِ روایت کے سب سے بڑے امام و محدث امام محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی معروف کتابِ بخاری کی کتاب الطب میں درج کی گئی حدیث { 5763 } میں سیدہ عائشہ صدیقہ کے حوالے سے اِس روایتِ حدیث کا یہ مضمون روایت کیاہے کہ { سحر رسول اللہ رجل من بنی زریق یقال لهٗ : لبید بن الاعصم ، حتٰی کان رسول اللہ یخیل الیه انهٗ کان یفعل الشیئی وما فعلهٗ } امام بخاری کی اِس حدیثِ بخاری کا لُب لباب یہ ہے کہ بنی زریق کے ایک شخص لبید بن الاعصم نے نبی علیہ السلام پر وہ خطرناک جادو کر دیا تھا جس خطرناک جادُو سے آپ کا یہ حال ہو گیا تھا کہ آپ خیال کرتے تھے کہ آپ ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ آپ وہ کام نہیں کر رہے ہوتے تھے لیکن امام بخاری کی اِس حدیث شریف میں یہ بات مُبہم تھی کہ اِس جادُو کے زیرِ اثر آپ خود کو جو کام کرتا ہوۓ محسوس کرتے تھے اُس کام کیا نوعیت کیا ہوتی تھی اِس لیۓ امام بخاری اِن ہی سیدہ عائشہ صدیقہ کے حوالے سے اُس پہلی مُبہم حدیث کے بعد یہ دُوسری مُفسر حدیث شریف { 5765 } بھی لائے ہیں جس کا متن یہ ہے کہ { کان رسول اللہ سُحر حتٰی کان یرٰی انهٗ یاتی النساء ولا یاتیھن } یعنی جب نبی علیہ السلام پر جو جادُو کیا گیا تھا اُس جادُو کا آپ پر یہ اَثر ہوا تھا کہ آپ خود کو عورتوں کے ساتھ صحبت میں مصروف پاتے تھے لیکن دَد حقیقت آپ ایسا کُچھ بھی نہیں کر رہے ہوتے تھے ، اِس شرمناک حدیث کا سب سے شرمناک پہلو { کان یرٰی انهٗ یاتی النساء } ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جادُو کے زیرِ اثر رہنے والے اُس زمانے میں آپ دیکھتے تھے کہ آپ عورتوں کے ساتھ صحبت کر رہے ہیں ، اِس حدیث میں جان بوجھ کر آپ کی زواجِ مطہرات میں سے آپ کی کسی زوجہِ طاہرہ کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ مُطلقا عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اِس حدیث کے پڑھنے والے کا ذہن جس طرف لیجانا چاہتے ہیں وہ خود بخود ہی اُس طرف چلا جاۓ ، اِن دونوں احادیث اور اِس قسم کی دیگر مُتعدد احادیث کے بعد اِن اہلِ روایت نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں سُورتیں اُس خطرناک جادُو کی جھاڑ پُھونک کے لیئے نازل ہوئی تھیں جو جادُو آپ کے سر کے بالوں میں گرہیں لگا کر کیا گیا تھا اور کر نے کے بعد ایک ویران کنویں میں ڈال دیا گیا تھا ، اِس روایتِ حدیث میں بہت خاموشی کے ساتھ یہ خاموش تاثر بھی شامل کیا گیا ہے کہ آپ اپنے بال تقسیم تو بہر حال نہیں کرتے تھے لہٰذا آپ کے وہ بال بھی آپ کی کسی بیوی نے اُس جادُوگر یہُودی کو دیئے ہوں گے جو بال جبریل کی نشان دہی پر ایک ویران کنویں سے تلاش کر کے نکالے گئے تھے ، اِن اہلِ روایت کے اِس روایتی دعوے میں یہ لطیفہ بھی شامل ہے کہ اہلِ روایت کی اِن روایات کے مطابق جو جادُو آپ پر 7ہجری میں ہوا تھا اُس جادُو کے توڑ کے لیئے یہ سُورتیں اُس سے کئی برس پہلے نازل ہو چکی تھیں لیکن اِس سارے عرصے میں { نعوذ باللہ } خود اللہ کو بھی آپ پر ہونے والے اِس خطرناک یہُودی جادُو کا علم نہیں ہوا تھا اِس لیۓ اللہ نے اِس سے پہلے اللہ نے جبریل کو اِس جادُو کی اطلاع دینے کے لیئے آپ کے پاس نہیں بہیجا ، اِس سلسلے میں سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ رُوۓ زمین پر اللہ تعالٰی کے جتنے بھی نبی اور رسول تشریف لائے ہیں اُن میں سے کسی بھی نبی اور کسی بھی رسول کی اُمت کے دل میں کبھی بھی یہ خیال نہیں آیا کہ اُس اُمت کے اُس نبی اور رسول پر کسی نے کالا جادُو کیا ہوا ہے لیکن اللہ کے اُن نبیوں اور رسولوں پر ایمان نہ لانے والوں نے ہمیشہ ہی اُن نبیوں اور رسولوں کی تکذیب کرنے کی غرض سے اُن پر یہی بُہتان لگایا ہے کہ یا تو وہ مُدعیانِ نبوت خود جادُو گر ہیں اور یا اُن پر کسی دُوسرے بڑے جادُو گر نے جادُو کر کے اُن کو نبوت و رسالت کی یہ ناقابلِ یقین باتیں سنانے پر لگایا ہواہے اور جو لوگ اللہ تعالٰی کے کسی نبی اور رسول کے بارے یہ باتیں کیا کرتے تھے تو وہ اِس لیئے ہر گز نہیں کیا کرتے تھے کہ وہ سَچ مُچ ایسا سمجھتے جیسا وہ ظاہر کرتے تھے بلکہ وہ تو محض اُس نبی کی تکذیب اور توہین کی غرض سے یہ باتیں کیا کرتے تھے کیونکہ جادُو گری کے اُس زمانے کے وہ لوگ یہ یقین رکھتے تھے کہ کوئی نبی جادُو گر نہیں ہوتا اور کسی نبی پر جادُو کا اثر بھی نہیں ہوتا اِس لیئے جب وہ لوگ کسی نبی و رسول کو جادُو کے اثر میں آیا ہوا کہتے تھے تو وہ بے شرم لوگ در حقیقت اُس نبی اور اُس رسول کو اپنے جُھوٹ کے جادُو کے اثر میں آیا ہوا کہتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مُوسٰی علیہ السلام نے جب فرعون کے سامنے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا تو اُس نے مصر کے تمام جادُوگروں کو اپنے شاہی دربار میں جمع ہونے کا حُکم دیا تھا تا کہ اُس کے وہ جادُو گر اُس کے سامنے ہی مُوسٰی علیہ السلام پر جادُو کریں اور اُس کے سامنے ہی مُوسٰی علیہ السلام پر اُس کے اُن جادُوگروں کے جادُو کا اثر ظاہر ہو اور وہ اُن کے سامنے یہ کہہ کر مُوسٰی کی تکذیب و توہین کر سکے کہ تُم پر میرے جادُو گروں کے جادُو کا جو اثر ہوا ہے وہ اَثر اِس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ تُم اللہ کے نبی نہیں ہو کیونکہ اِس دربار کے اندر آنے اور باہر رہنے والے سارے لوگ جانتے ہیں کہ نبی پر جادُو کا اثر نہیں ہوتا اور تُم پر جو اثر ہوگیا ہے وہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ تُم اپنے دعوے کے مطابق اللہ کے نبی نہیں لیکن جب فرعون کی اُس فرعونی تقریب کا نتیجہ بالکُل ہی اُس کی توقع کے خلاف نکلا تو اُس نے اپنے اُن جادُوگروں پر مُوسٰی علیہ السلام کے ساتھ اُن کی ملّی بھگت کا الزام عائد کر کے مُوسٰی علیہ السلام کو اُن جادُوگروں کا اُستاد قرار دے کر اُس نے اپنے اِس خیال کے مطابق اپنی اِس دلیل کے ساتھ اُن کی نبوت کا انکار کیا کہ کوئی نبی جادُوگر نہیں ہوتا اور تُم چونکہ جادُوگر ہو اِس لیئے تُم اللہ کے نبی نہیں ہو لیکن اللہ تعالٰی نے سُورَہِ یُونس کی اٰیت 81 میں فرعون و مُوسٰی کے اِس مقدمے کا بذاتِ خود ہی یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ { قال موسٰی ما جئتم به السحر ان اللہ سیبطلهٗ ان اللہ لا یصلح عمل المفسدین } یعنی مُوسٰی نے جو یہ کہا ہے تو بالکُل سچ کہا ہے کہ تُم لوگ مُجھے جو کرتب دکھا رہے ہو وہ تو تُمہارے جادُو کے وہ جادُوئی کرتب ہیں جن کے بارے میں اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ حق کے مقابلے میں جادُو کے اِن باطل ہتھیاروں کو کبھی بھی کامیاب نہیں دیتا کیونکہ جو لوگ عادی اہلِ فساد ہوتے ہیں اُن پر اصلاح و ہدایت کے دروازے کبھی نہیں کُھلتے اور کبھی بھی نہیں کھولے جاتے ، اِس تفصیل کا اجمال یہ ہے کہ اِس اُمت کے اِن مردود اہلِ روایت کے سوا دُنیا میں کبھی بھی کسی اُمت نے اپنے نبی اور اپنے رسول کو سحر زدہ نہیں کہا ہے کیونکہ نبی کو سحرزدہ کہنا اُس نبی کی نبوت کا ا کار کرنا ہے اور اِس اُمت کے جن اہلِ روایت یہ بیہُودہ کام کیا ہے وہ صرف اور صرف اِس غرض سے کیا ہے تاکہ قُرآن کے اِس صحیفہِ ہدایت کو ایک مشکوک بنا دیا جاۓ کیونکہ یہ بات کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ اللہ کے نبی نے کون سی وحی اُس جادُو کے زیرِ اثر رہ کر سنائی ہے اور کون سی وحی اُس جادو کے اثر سے آزاد ہو کر سنائی ہے ، الخصوص سُورَةُالمائدة ، سُورَةُالجمعة اور سُورَةالتحریم تو پُوری کی پُوری اُن کی روایتی شانِ نزول کے مطابق اُس 7ہجری کے سال میں نازل ہوئی ہیں جس 7ہجری کے سال کو وہ آپ پر ہونے والے خطر ناک یہُودی جادُو کے زیرِ اثر رہنے کا سال قرار دیتے ہیں !!

 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558134 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More