ریاست کی جانب سے گریجوٹی اور پینشن کی مد میں ادا کی جانے والی رقم احسان نہیں

ریاست کی جانب سے گریجوٹی اور پینشن کی مد میں ادا کی جانے والی رقم احسان نہیں بلکہ حکومت وقت پر قرض ہے اور یہ ملازم کا بنیادی حق ہے

کسی بھی سرکاری ادارے سے اپنی سروس مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کی پالیسی کے مطابق رقم کی جوادائیگی کی جاتی ہے اس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دو نام دیے گئے ہیں
1۔ گریجویٹی
2۔ پینشن
1۔ سروس کے اختتام پررملازم کو رقم کا کچھ حصہ یَک مُشت ادا کردیا جاتا ہے۔ جوکہ گریجویٹی کہلاتی ہی ہے
2۔ ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو تا حیات ہرماہ ایک مختص رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے جوکہ پینشن کہلاتی ہے۔

میرا آج کا اصل موضوع بحث ہے کہ یہ پینشن کیا ہے۔کچھ لوگ اسے سرکار/ ریاست کی جانب دیئے جانے والی رقم کو سرکاری وظیفہ کا نام دیتے ہیں ۔ جہاں وظیفہ کا نام آتا ہے تو عوام کی اکثیریت یہ رائے قائم کرلیتی ہے کہ سرکار/ ریاست اس ملازم کو سرکاری خزانے سے گریجوٹی اور پینشن کی صورت میں جو وظیفہ ادا کرتی ہے ۔ وہ اس وظیفہ کی ادائیگی کو بادِیُ النَّظَر میں محض تبرع واحسانِ سرکار سمجھ کراسے سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ تصور کر بیٹھتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیونکہ دراصل یہ رقم اس ملازم کی ہی ملکیت ہوتی ہے۔ جوکہ ریاست/ سرکار اوراس ملازم کے درمیان طہ شدہ مُعاہَدَہ کے مطابق گریجوٹی اور پینشن اداکرنے کی پابند ہے۔

کیوں جب کوئی بھی شخص کسی بھی سرکاری ادارہ میں ملازمت اختیار کرتا ہے تو ادارے اور ملازم کے درمیان ایک مُعا ہَدَہ طہ پاتا ہے ۔جس کے مطابق سرکار / ریاست سروس کے اختتام پر ملازم کو اس کی بنیادی تنخواہ کے حساب سے اس کی سروس کے حساب سے٪ 100 رقم کی ادائیگی کرنے کی پابند ہوگی۔ اور اس کی ادائیگی کس کس طریقہ کار سے کی جائے گی اس کےبھی تمام قواعد وضوابط طہ پاتے ہیں۔
جیسا کہ٪100کے حساب سے ایک ملازم کے 1000 روپے بنتے ہیں تو ہونا تو یہ چاہیئے کہ اس ملازم کو سرکار/ ریاست کی جانب سے یکمشت اس ملازم کو ایک ہزار روپے کی ادائیگی کردی جاتی ۔ مگر اصل صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ سرکار/ ریاست اپنے مفاد میں حالات اور وقت کے حساب سے قائدے وقانون ترتیب دیتی رہتی ہے ۔ اسی طرح مختلف ادوار میں سرکار/ ریاست نے پینشن کی مدِ میں بھی قائدہ اور قانون میں ترامیم کی ہیں موجودہ قانون کے مطابق ریاست/ سرکار سروس مکمل کرنے والے ملازم کو ملنے والے( 1000)ایک ہزار روپے میں سے( 300)روپے پہلے ہی کٹوٹی کرلیتی ہے جس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا ہے۔ ملازم کو اسکی رقم کا صرف اور صرف٪70دیا جاتا ہے جس کی ادائیگی کے لیے بھی ریاست کی جانب سے مختلف قوائد وضوابط بنائے گئے ہیں اب٪ 70کے حساب سے جو ( 700)سات سو روپے بقایا بچتے ہیں اس کی تقسیم کار کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ اس رقم کو پینشن اور گریجویٹی کی مد میں دوحصوں میں تقسیم کرلیا جاتا ہے اس کا٪35 گریجویٹی کی مد یکمشت ادائیگی کردی جاتی ہے۔ جوکہ( 245)دوسو پینتالیس روپے بنتی ہے اسطرح باقی بچ جانے والی رقم( 455) چار سو پچپن روپے ریاست اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ جو کہ وہ ماہانہ پینشن کی صورت میں ملازم کو تاحیات دیتی ہے یا پھر ملازم کے وفات پاجانے کی صورت میں ریاست قائدہ قانون اورمُعاہَدَہ کے مطابق اس کی شریک حیات اور اس کے بچوں کو اداکرنے کی پابند ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست نے ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو( 1000) ایک ہزار روپے میں سے کیا دیا ہے ۔ ملازم کو صرف( 245)روپے اداکئے اور( 755)روپے اپنے پاس رکھ لئے ہیں۔اس مسئلہ کو اگر سادہ الفاظ میں سمجھایا جائے تو ریاست ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو ایک ہزار(1000) میں سے صرف( 245)دوسو پینتالیس روپے کی ادائیگی کی ہے۔ اور( 755)روپے اپنے پاس ہی رکھ لیئے ہیں یعنی کہ٪ 100 فیصد رقم کی بجائے٪ 35 رقم کی ادائیگی کی اور٪ 65رقم اپنے پاس ہی رکھ لی۔ جس میں سے ریاست ملازم کو ہر ماہ پینشن کی ادائیگی کرتی ہے۔ اور عوام الناس کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ ریاست/ سرکار کی جانب سے ریٹائرڈ ملازمین پر کوئی نوازش ، مہربانی ،احسان یا پھر کوئی خصوصی عنایت فرما رہی ہے ۔

ایسا ہرگز نہیں ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کی رقم سے٪ 65 کاٹی گئی رقم ریاست / سرکار کے پاس امانت کے طور پر موجود ہے قائدے ،قانون اور طہ شُدہ مُعا ہَدَہ کےمطابق ریاست/ سرکار ہر ماہ پینشن کی صورت میں اس رقم کی بروقت ادائیگی کی پابند ہے۔
اسی طرح ملازمت دو اقسام کی ہوتی ہیں
1۔ پنشن ایبل ملازمت
2۔نان پنشن ایبل ملازمت

1۔پیشن ایبل ملازمت
پنشن ایبل ملازم کی تنخواہ اصل تنخواہ سے تقریباً ایک تہائی کم رکھی جاتی ہے ۔جو ایک تہائی کے برابر رقم ہے وُہ پنشن فنڈ میں جمع ہوتی ہے ۔ ریاست کی صَواب دید پر اس پنشن فنڈ کو یا تو کسی مالیاتی نظام سے منسلک کیا جاتا ہےجیساکہ (انشورنس کمپنی ، میوچوئل فنڈ (وغیر) جہاں اس جمع ہونے والی رقم سے محفوظ سرمایہ کاری کی جاتی ہے تاکہ اس رقم میں مذید اضافہ کیا جائے ۔اور پھر ریٹائیر ہونے کے بعد مُلازم کو زندگی بھر اسی کی پس انداز رقم سے پنشن کی ادائیگی کی جاتی ہے ۔ یہ پیسے مُلازم کےاپنے ہوتے ہیں اور ریاست/سرکار پر اس کا ایک پیسے کا بوجھ نہیں ہوتا ہے۔

2۔ نان پینشن ایبل ملازمت
دُوسری یعنی نان پینشن ایبل ملازمت جہاں پر ملازمت اختیار کرنے والے ملازم کو تنخواہ زیادہ دی جاتی ہے ۔ اسطرح ملازم اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کے بعد رقم کا کچھ حصہ بچالیتا ہے۔ اور یوں ملازم دوران ِملازمت اس تنخواہ میں سے رقم بچاکراسے کسی فنڈ ،انشورنس کمپنی،حصص مارکیٹ ،یاپھر اسٹیٹ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتاہے۔جہاں سے اسے ایک معقول آمدنی حاصل ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔اور یہ اس کے اور اس کے خاندان کے تابناک مستقبل کے لئےایک مستقل ذریعہ آمدن بن جاتی ہے۔ جس سے یہ اپنی فیملی کی صحت مند پرورش اورانکی بہترین کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے اور انکی بہتر تربیت کے حصول کے ساتھ ساتھ باقی تمام ترسماجی ذمہ داریاں نبھانے میں اسے مالی دشواریوں کا سامنانہیں کرنا پڑتا ہے ۔اور جب یہ بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اس کاایک سنہرا مستقبل اس کو خوش آمدید کہتا ہے یوں یہ اپنی باقی مانندہ زندگی اپنے خاندان کے ساتھ بڑی شان وشوکت اور خوش اسلوبی کے ساتھ بسر کرتا ہے ۔

ہر دو صورتوں میں ریاست/سرکار کا کُچھ خرچ نہیں ہوتاہے اور نہ ہی ریاست کے خزانے پر کوئی اضافی مالی بوجھ ہوتا ہے ۔اکثر ذمہ دار معاشروں میں سینئیر سٹیزن ریٹائیر ہوکراپنی ایک نئی خوشگوار زندگی کا آغازکرتے ہیں دُنیا کی سیرجیسےشُغل اپناتے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنی بھرپور صحت اور توانائی والی زندگی ریاست اورمعاشرے کو دی ہوتی ہے اور بڑھاپا اچھا گُزارنا ان کا جائزاور بنیادی حق ہوتا ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم ملازمین کی پس انداز رقم کو نہ کسی مُناسب فنڈ میں جمع کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی مُناسب اور بہترسرمایہ کاری کرتے ہیں۔آخر کار اس کا تمام ترخمیازہ اور تکالیف اُس ریٹائرڈ ہونے والے ملازم کو بھگتنی پٹرتی ہیں جس نے نہایت جانفسانی ،لگن ،محنت اور ایمانداری کے ساتھ اس ملک وقوم اور ادارے کی خدمت میں اپنی زندگی کے سنہرے ماہ وسال قربان کئے ہوتے ہیں ۔اس کو اپنے جائز حقوق کے حصول کی خاطر جن پریشانیوں ، دشواریوں ، ذلت ،تذلیل اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ معا ملات اس قدر گھمبیرصورت حال اختیار کرجاتے ہیں کہ اپنا حق بروقت نہ ملنے کے سبب ایک روبن مسیح بے بس ، مجبور ، لاچار اورمایوس ہوکربالائی منزل سےچھلانگ لگا کر اپنی جان دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔

ایک ہی ریاست کی چھتری کے نیچے ملازمین کے ساتھ یہ نامنصفانہ دہرا معیار سمجھ سے بالاء تر ہے ایک طرف تو پینشن کی ادائیگی کو ریاست کے خزانے پر ناروا بوجھ تصور کیا جاتا ہے ۔ تو دوسری جانب ریاست کی جانب سے پینشن کے نام پر کچھ ریاستی ملازمین کو استشنائی مراعات کی مد میں نوکر، پلاٹ، زرعی زمین، پیٹرول کوٹہ، یوٹیلٹی بل کی ادائیگی،اخبارات ،کتابوں کی لائبریری اورسیر سپاٹے کے لیئے گاڑی جیسی نوازشات کی صورت میں اضافی سہولیات سے نوازا جاتا ہے ۔ تو دوسری جانب اپنے حقوق کے حصول کی خاطر اپنے جان سے گزرناپڑتا ہے۔

جس معاشرے میں عدل وانصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے معاملات میں تضاد پایا جائے جہاں دہرے معیار اپنائے جاتے ہوں تو وہاں ایسے دل خراش واقعات کا وقوع پذیر یا رونما ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔

ایک ہی ریاست میں ملازمین کے ساتھ بلاجواز ناروا برتاؤ اور دہرا معیار ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کا بہتر حل یہ ہے کہ دوران سروس ملازمین کی تنخواؤں اور ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کی گریجویٹی اور پینشن کی مد میں ملنے والی رقم سے جو رقم ریاست اپنے پاس رکھتی ہے ۔اس فنڈ کا مَصْرَف انتہائی ذمہ داری کے ساتھ کیا جائے ۔ تاکہ بہتر سرمایہ کاری سے نفع حاصل کیا جاسکے ۔اور ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو ان کی گریجویٹی اور پینشن کے پیسوں کی ادائیگی بلا کسی تفریق ،بلا تعطل ،یکسوئی اور سہولت کے ساتھ بر وقت عمل میں لائی جاسکے۔ پینشن کے نام پر کچھ ریاستی ملازمین کو استشنائی مراعات کی مد میں نوکر، پلاٹ، زرعی زمین، پیٹرول کوٹہ، یوٹیلٹی بل کی ادائیگی،اخبارات ،کتابوں کی لائبریری اورسیر سپاٹے کے لیئے گاڑی جیسی نوازشات کی صورت میں اضافی سہولیات اور مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔

علاوہ ازیں کُچھ اداروں کے ملازمین دوران ملازمت یا بعد از ملازمت اپنے مُعاوضہ ، الاؤنسز اور دیگر مراعات کا تعین خُودکرتے ہیں وہ بھی معقُول اور باقی ملازمین کو دی جانے والی سہولیات سے مطابقت رکھتی ہوں

پینشن اور گریجویٹی کےتمام معا ملات اور پہلو پر مکمل جائزہ پیش کیا جاچکا ہے اُمید ہے کہ وہ حضرات جو پینشنرز کو ریاستی خزانے پر بےجا بوجھ تصور کرتے ہیں توان کے سمجھنے کہ لیئے کافی ہے کہ موجودہ پنشنرز اپنے پس انداز پیسوں کی پنشن لے رہے ہیں کسی کا اُن پر احسان نہیں ۔بلکہ ریاست انکی رقم کی امانت دار ،محافظ اور امین ہے اسطرح اب یہ ریاست کا فرض عین ہے کہ وہ اپنےاس فرض کو دیانت داری ،ایمانداری ،خلوص دل،خندہ پیشانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس امانت کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ ان کے حقداروں تک پہنچائے ۔تاکہ یہ بھی معاشرے میں باعزت اور باوقار زندگی بسر کر سکیں ۔
 

Anwar Bhatti
About the Author: Anwar Bhatti Read More Articles by Anwar Bhatti: 4 Articles with 3060 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.