|
|
ماضی میں انسان اپنی امارت کا اظہار اپنی گاڑی اپنے گھر
سے کیا کرتا تھا مگر اب جب سے مہنگے برانڈ مارکیٹ میں آئے ہیں امارت کے
اظہار کا یہ بھی ایک طریقہ بن گیا ہے جس کو مردوں کے مقابلے میں خواتین نے
بہت زیادہ اپنایا ہے جسم پر پہننے کے لباس، پیر کے جوتے مہنگے زيورات یہاں
تک کہ کھانے پینے کی چیزیں بھی برانڈز کی ہی خریدنے کو ترجیح دیتی ہیں- |
|
یہی وجہ ہے کہ عوام کی اس کمزوری کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے برانڈز سے جڑے لوگ اپنی عام سی اشیا بھی مہنگے ترین داموں میں
فروخت کرتے ہیں اور لوگ بہت فخر سے خریدتے بھی ہیں- |
|
مہنگے ڈيزائنر کے ملبوسات |
عام طور پر مختلف برانڈز کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایسے ملبوسات تیار کریں
جو کہ دوسروں سے مختلف ہوں تاکہ ان کے صارفین کی انفرادیت کا شوق بھی پورا
ہو جائے اور ان کا نام بھی بن جائے- |
|
اسی مقصد کے لیے یہ برانڈز انتہائی مہنگی تنخواہوں پر نہ صرف اپنے ڈيزائینر
کو ملازمت دیتے ہیں بلکہ ہر سیزن کے ملبوسات کی ڈيزائننگ کا آغاز بھی
تقریباُ اس موسم کے آنے کے چھ ماہ قبل ہی سے کر دیا جاتا ہے- |
|
چوری کے ڈیزائن کا شہرہ |
اتنی مہنگی تنخواہوں کو دینے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ برانڈز کے ڈيزائنر
اپنی قوت تخلیق سے ایسے لباس ڈيزائن کرے جو کسی نے پہلے نہ دیکھا ہو اور نہ
ہی استعمال کیا ہو- |
|
|
|
جیسے کہ سردی کے موسم کا آغاز ہو گیا ہے اور برانڈز نے
سردی کے کپڑوں کے نت نئے ڈيزائن مارکیٹ میں آنے شروع ہو گئے ہیں مگر اسی
میں لینن کے کپڑوں کے ایک برانڈ کے کپڑوں کے ڈيزائن کے حوالے سے ایک صارف
نے بہت ہی دلچسپ انکشاف کیا- |
|
اس کا کہنا تھا کہ اس برانڈ نے کپڑوں پر جو ڈيزائن بنایا
ہے وہ ڈیزائن ہو بہو ڈیڑھ سال قبل ان کے استعمال کیے گئے رجسٹر کی کاپی ہے-
یعنی دوسرے لفظوں میں اتنے مہنگے برانڈ نے خود سے ڈيزائن بنانے کے بجائے
ایک رجسٹر پر سے ڈیزائن کو چوری کر لیا ہے جو کہ انتہائی شرمناک ہے- |
|
سوشل میڈيا صارفین کے
تبصرے |
اس صارف کی اس شکایت پر سوشل میڈيا کے صارفین نے اپنے
انداز میں اس چوری کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا- |
|
ایک صارف نے یہ کہا تھا کہ اس رجسٹر پر موجود تصویر کو گوگل سے کاپی کیا
گیا تھا اس کا مطلب ہے کہ اتنا مشہور برانڈ بھی گوگل کے ڈيزائن کاپی کرنے
لگا ہے تو پھر ان کی انفرادیت کہاں گئی؟ |
|
|
|
|
جبکہ اس ڈیزائنر کی حمایت میں کچھ صارفین کا یہ
بھی کہنا تھا کہ یہ برانڈ والے اپنے ڈيزائنر سے مہینے کے دو لاکھ ڈيزائن
بنواتے ہیں اور پھر اس میں سے انتخاب کرتے ہیں۔ تو اس صورت میں تو ایسا ہی
ہوگا- |
|
ایک صارف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تو ہماری
عوام کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ مہنگے برانڈ ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں
ان کو اب تو اس حوالے سے سوچنا چاہیے- |
|
ایک صارف نے تو بہت ہی مزے کا سوال پوچھا کہ اس
چوری کے ڈيزائن والی شرٹ کی قیمت کیا ہے؟ یقیناً یہ بہت مہنگی ہو گی آخر
برانڈ کی جو ہے- |
|
تاہم اس شرٹ نے اس مہنگے برانڈ کی ڈيزائننگ کا
پول ضرور کھول دیا ہے جو کہ مارکیٹ کا صف اول کا ڈيزائن ہونے کا دعویدار ہے- |
|
|