یوم تعلیم اور لڑکوں کا بارہویں پاس!!!

آج ملک بھر میں مولانا ابوالکلام آزاد کی یوم پیدائش پر یوم تعلیم منایاجارہاہے، مولانا ابوالکلام آزاد بھارت کے پہلے وزیر تعلیم تھے ، جب وہ اس ملک کے وزیر تعلیم بنے تو انہوںنے ملک میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے جو منصوبے رائج کئے تھے اسی کی بدولت بھارت میں تعلیمی میعار بہتر ہوا ہے ۔ انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی (آئی آئی ٹی) ، انڈین انسٹیٹیو ٹ آف مینجمنٹ (آئی آئی یم) ،انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس (آئی آئی یس سی ) جیسے باوقار تعلیمی اداروں کو قائم کرنے کیلئے مولانا آزاد نے ہی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے تعلیم کے تعلق سے جو منصوبے رائج کئے تھے ان منصوبوں سے بھارت کی بیشتر قومیں استفادہ کررہی ہیں سوائے مسلمانوں کے ۔ آج بھارت کے مسلم نوجوانوں کے تعلیمی سطح کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح لڑکوں سے زیادہ ہورہی ہے اور لڑکے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ مکمل ہنر مند بن رہے ہیں نہ ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ نسلوں میں شما ر ہورہے ہیں ۔ مسلم نوجوانوں کا حال دیکھیں ، افسوس ہوتاہے کہ وہ اپنی تعلیم، روزگار اور مستقبل کو لے کر بالکل بھی سیریزنہیں ہیں اور نہ ہی انہیں انکی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے کوئی رہنمائی کیلئے تیار ہے ۔ نوجوانوں کا بڑا حصّہ بالکل بھی اپنی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ نہ انہیں اپنے مستقبل کی فکر ہے نہ ہی اپنے وجود کی فکر ہے ۔شوق ، فیشن اور وقت گزاری کو اپنی زندگیوں کا نصب العین بنائے ہوئے ہیں ۔ جس عمر میں مسلمانوں کے سپہ سالاروں نے حکومتیں قائم کی تھی اس عمر کے نوجوان اپنا ووٹر کارڈ بھی بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ اچھے کاموں کے انتظار میں تو ہیں لیکن کام کی تلاش میں نہیں ہیں ۔ اچھی زندگی گزارنا تو چاہتے ہیں لیکن انکی صبح 12 بجے اور رات دو بجے ہوتی ہے ۔ پرسکون زندگی تو گزارنا چاہتے ہیں لیکن آپ کی کمائی پر نہیں بلکہ باپ کی کمائی پر ۔ ہاتھوں میں موبائل ، مہنگی گاڑیاں اور کچھ پیسے دوستوں کے ساتھ خرچ کرنے کو ہی انہوںنے زندگی مان لیا ہے ۔ وہیں دوسری جانب والدین ان بچوں کی صحیح رہنمائی کرنے سے قاصر ہیں ۔ انکی نظروں میں جان جوان لڑکے ابھی بچے ہیں۔ جبکہ انکے مقابلے میں لڑکیاں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں اور اونچے عہدوں پر فائزہورہی ہیں ۔ مسلم لڑکیاں آج اس حال پر آچکی ہیں انکے لئے مناسب رشتے نہیں مل رہے ہیں ، انکے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نہ صحیح کم از کم انکے برابر کے رشتے بھی دستیاب نہیں ، نتیجہ یہ کہ کم و پیش کی شادیوں کے بعد اکثر معاملات میں نااتفاقی پیدا ہورہی ہے ، خلع اور طلاق جیسے معاملات میں اضافہ ہورہاہے ۔ ان سب کی اصل وجہ مسلم نوجوانوں کی تعلیم سے دوری اور نوجوانوں کی حماقتیں ہی ہیں اسکے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ کچھ سال قبل ایک معاملہ پیش آیا تھا جس میں ایک لڑکی اچھی تعلیم حاصل کرتے ہوئے مرکزی حکومت میں ملازمت کررہی تھی ، وہ اپنے لئے اپنے برابر یا اپنے سے اعلیٰ عہدے پر فائز نوجوان سے شادی کرنا چاہتی تھی ، کئی سالوں تک اسے اسکے برابر والا رشتہ نہ ملاتو وہ معمولی نوکری والے سے شادی کربیٹھی ، کچھ ہی دنوں میں دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور لڑکی نے خلع لے لیا ، اسکے بعد اس نے جس لڑکے سے شادی کی تھی وہ عہدے میں اسکے برابر والاضرور تھا لیکن دوسرے مذہب سے اسکا تعلق تھا جس کی وجہ سے وہ عورت ملحد ہوگئی ۔ معاشرے میں ایسے کئی معاملات ہیں جن کا حل تعلیم سے ہی نکالاجاسکتاہے خصوصاًلڑکوں کی تعلیم کو لے کر والدین جو لاپرواہی برت رہے ہیں اسکے منفی یعنی نیگیٹیو نتائج سامنے آرہےہیں ، ایسے میں والدین لڑکیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تعلیم پر بھی توجہ دیں ، اپنے بیٹوں کو پڑھائیں نہ کہ انکے تعلق سے یہ خیال پیدا کریں کہ لڑکا ہے کیسے بھی جی لے گا ۔ پڑھنا ضروری نہیں ہے ، پڑھ کر کیا کریگا، پڑھنے لکھنے آجائے تو کافی ہے ۔ اس طرح کا تصور نہ صرف اپنے بچوں کی زندگی برباد کررہا ہے بلکہ پورے معاشرے کیلئے نقصاندہ ہے ۔ حال ہی میں ایک شادی کا رقعہ بھی نظروں سے گزرا۔ لڑکی کے نام کے سامنے بی یس سی ۔ بی ایڈ تھا تو لڑکے کے نام کے سامنے پی یو سی( بارہویں) لکھا ہوا تھا۔یقیناًڈگری ہی زندگی کیلئے سب کچھ نہیں ہے البتہ اچھی اور اعلیٰ تعلیم سے ہی شخصیت بنتی ہے اور آج کے دور میں شخصیت کا ہونا ضروری ہے ۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایسے حالات کو دیکھ کر ہی اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کئے تھے لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کے علاوہ سب اٹھا رہے ہیں ۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.