علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اسلام نے شروع سے ہی علم حاصل کرنے پر بڑا زور دیا ہے کہ علم ہی وہ ذریعہ ہے جو انسان کو اچھے اور برے کی تمیز سکھاتا ہے عقل اور شعور کا درست استعمال بھی علم ہی کے ذریعے ممکن ہوسکتا ہے۔ علم ہی کی بدولت انسان دوسرے حیوانوں سے الگ اور ممتاز ہے۔علم کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ اسلام میں پہلی وحی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہوئی تو وہ علم کے متعلق ہی ہے کہ پڑھو(اے نبی صلہ اللہ علیہ وسلم) اپنے رب کے نام سے(القرآن)۔ علم نور ہے اور اس علم کے ذریعے ہی انسان اپنے آپ کو، انسانیت کو،ماضی‘ حال اور مستقبل کو آئینہ کی طرح دیکھ سکتا ہے۔علم نے انسان کو محکومی سے نکال کر حاکمیت عطا کی۔قوموں کے عروج و ظوال تعلیم کی مرحون منت ہے،بڑے بڑے اسکالر، مفکر،محدث،مجتہد وغیرہ تعلیم کی ہی دین ہے مخلوط نظام تعلیم کی تاریخ مخلوط نظام تعلیم کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے یہ دور حاضر کے اہل مغرب کی ایجاد ہے،دنیا کی قدیم تہذیبوں کے حامل ترقی یافتہ قوموں میں بھی مخلوط تعلیم کا رواج نہیں ملتا، تاریخ کے ہر دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ نظام تعلیم رائج تھا۔مخلوط تعلیم کا آغاز مساوات مرد وزن کے پر فریب نعرے سے ہوا، اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور پر عورتوں اور مردوں کے درمیان صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق رکھا ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ دونوں کا دائرہ کار ا لگ الگ ہو،لیکن صنعتی انقلاب کے بعد جب سرمایہ داروں کے لئے زیادہ سے زیادہ عملہ کی ضرورت ہوئی تو کم از کم معاوضہ میں زیادہ کام کروانے کے لئے خواتین کو آزادئی نسواں کے پر فریب دام میں پھانس کر انھیں مردوں کے شانہ بشانہ لا کھڑا کیا گیا،انسانی معاشرے میں جب مردوخواتین میں سے ہر ایک کا دائرہ کار الگ الگ ہے اور دونوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں تو دونوں کا نظام تعلیم بھی علیحدہ ہونا چاہیے۔ صحت کی تباہی مخلوط نظام تعلیم کا سب سے خطرناک اثر طلبہ وطالبات کی صحت پر پڑتا ہے،لڑکے اور لڑکوں کو چھ تا آٹھ گھنٹے اکھٹے بٹھانا در اصل انھیں جنسی کشمکش میں مبتلا کرنا ہے، جس کے صحت ونفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاتون مرد کا اختلاط ذہنی دباؤ کے ہارمونس میں اضافہ کا سبب بنتا ہے، ایک خوبصورت اجنبی خاتون صرف پانچ منٹ میں کسی مرد میں ذہنی دباؤ پیدا کرنے والے عوامل کی سطح میں اضافہ کرسکتی ہے جو مرد کے قلب کے لئے مضر ثابت ہوسکتی ہے،اسپین کی یونیورسٹی آف ویلنسیا کے محققین نے اس بات کا پتہ چلایا ہے کہ اس سے مرد کے کولیسٹرال سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس کے نتیجہ میں صحت پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں،محققین نے اپنے جائزہ کے دائرہ کار میں تجربہ کے لئے 84 مرد طلبہ کو شامل کیا جن میں کسی ا جنبی عورت کے ساتھ تنہا چھوڑنے سے قبل اور اس کے بعد ان کے کولیسٹرال سطحوں کی پیمائش کی گئی تھی جس سے صاف فرق واضح ہوا۔ مغربی تعلیم کے مضر اثرات تعلیم کا مسئلہ ہر ملک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی کے لیے یہ ایسی شاہ کلید ہے کہ جس سے پھر سارے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں، مسلمانوں نے جب تک اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا وہ دنیا کے منظرنامہ پر چھائے رہے اور انھوںنے دنیا کو علم کی روشنی سے بھر دیا، انھوں نے تعلیم کے لیے کچھ بھی دوئی نہیں برتی، اور اس کو انسانیت کی فلاح و بہبودی کا ذریعہ بنایا، لیکن جب مسلمانوںکی غفلت کے نتیجہ میں پوری دنیااخلاقی بحران کا شکار ہوگئی تو عالم اسلام خاص طور پر اس سے متاثر ہوا، اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوئی کہ اس نے اپنی بنیاد ہی فراموش کردی، اور عرصہ کے بعد جب دوبارہ بیداری پیدا ہوئی تو اس نے وہی نظام تعلیم اختیارکرلیاجو یورپ کا تیار کردہ تھا، اس کی بڑی وجہ برطانیہ و فرانس کا سامراجی نظام ہے، جو دنیا کے اکثر حصہ پر قائم رہا، اور جب سیاسی مجبوریوں کی بنا پر ملکوں کو آزاد کیا گیا تو جسم تو آزاد ہوگیا، لیکن عرصہ تک غلامی میں رہنے کی وجہ سے ذہن و دماغ غلامی کے شکنجے میں جکڑے رہے، اور ان ملکوں میں یورپ نے جو نظام تعلیم جاری کیا تھا وہی نظام سامراجی دور کے بعد بھی قائم رہا، اس چیز نے پورے عالم اسلام کو متاثر کیا، خود اسلامی ملکوں میں پڑھنے والوں کا حال یہ ہوا کہ وہ اپنی اپنی یونیورسٹیوں سے پڑھ کر نکلے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ یورپ کے غلام ہیں، ان کے ذہن و دماغ وہیں کے سانچہ میں ڈھلے ہوئے اور خود وہیں کی تہذیب میں رنگے ہوئے۔ان مشرقی ملکوں کا مزاج اور وہاں کی روایات کا یورپ کے اپنے اصولوں اور روایات سے کوئی جو ڑ نہ تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان ملکوں میں ایک کشمکش کی فضا پیدا ہوگئی، اسلامی ملکوں میں قدرتی طور پر یہ کشمکش زیادہ وسیع پیمانہ پر اور شدت کے ساتھ پیدا ہوئی اور ان ملکوں کی صلاحیتیں ان ہی آپس کے نزاعات میں ضائع ہونے لگیں، جو خانہ جنگی تک پہنچ گئی۔Conclusion لہزا ہمیں اس دور میں رہکر بھی اپنے اصلاف کی دی ہوئی تعلیم و تربیت سے جڑے رہنا چاہیے۔قرآن ہمیں ہر دور میں رہنمائی کرتا آیا ہے اور کرتا رہیگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی نسلوں کو مغربی تعلیم و تربیت (جو اس دور میں زہر کا کام کر رہی ہے)سے بچا کر ان پر ان پر ایک احسان کرنا ہے،جو کہ ہمارا اولین فرض ہے،تا کہ مغرب کی طرز تعلیم کو قدغن لگ جائے۔اور ہم اپنے ملک و سماج کے نوجوان گرم خون کو دین کے کاموں میں مصروف رکھ سکیں اور اپنے قوم کے مستقبل کو کو روشن کرنے کی تیاری پہلے سے ہی کر کے رکھیں۔ الداعی اللخیر:عاشق میر راجپورہ