ہم بولتے رہے کہ ہماری بچی دے دو مگر، مسیحائی کے پیشے سے وابستہ ڈاکٹروں کی لالچ نے والدین کو ایسا دکھ دے دیا کہ وہ فریاد پر مجبور

image
 
آج کل ڈینگی نے ملک بھر میں وبائی صورتحال اختیار کی ہوئی ہے جس کا شکار بچے بڑے سب ہو رہے ہیں۔ ڈینگی کی حالیہ لہر کے حوالے سے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ایک جانب تو یہ بہت شدید اور جان لیوا ہے اور دوسری جانب فوری طبی امداد نہ فراہم کرنے کی صورت میں پلیٹی لیٹس تیزی سے گرنے لگتے ہیں اور جان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-
 
5 سالہ حورین کے والدین کی فریاد
سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ایسی فریاد گزشتہ کچھ دنوں سے سب کی نظروں کے سامنے سے گزر رہی ہے جس کو پڑھ کر پتھر سے پتھر دل انسان کا بھی دل پگھل سا جاتا ہے-
 
سوشل میڈیا کے ذریعے سے سامنے آنے یہ پوسٹ طوبیٰ عامر کی جانب سے شئير کی گئی ہے جن کا کہنا تھا کہ نو نومبر 2022 کو ان کی بیٹی 5 سالہ حورین کو بخار ہوا جو کہ ٹیسٹ کروانے پر ڈينگی تشخیص ہوا-
 
اس وقت حورین کے پلیٹی لیٹس کی تعداد 25000000 تھے جو کہ تقریباً نارمل رینج ہی میں تھے لیکن حورین کا بخار بہت زيادہ تھا جس کی وجہ سے وہ اس کو اپنے گھر کے قریب موجود حبیب میڈیکل سنٹر لے کر گئے جہاں پر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اسد نے حورین کو چیک کرنے کے بعد اس کو دوائی دی اور گھر واپس بھجوا دیا-
 
image
 
بخار کی شدت کا کم نہ ہونا
مگر گھر واپس آنے کے بعد بھی حورین کے بخار میں کسی قسم کی کمی نہ ہوئی جس کے بعد والدین نے دوبارہ فون کے ذریعے ڈاکٹر اسد سے رابطہ کیا جنہوں نے ناپا نامی دوا کو بچی کے جسم کے اندر رکھنا تجویز کیا تاکہ بخار کی شدت میں فوراً کمی واقع ہو سکے-
 
مگر جب بخار کم نہ ہوا تو ایمرجنسی میں حورین کو ہسپتال لے جایا گیا جہاں چار گھنٹے تک اس کو ایمرجنسی میں لے کر بیٹھے رہنے کے بعد ڈاکٹر کاشف نامی سینئير ڈاکٹر کے کہنے پر حورین کو ایڈمٹ کر لیا گیا-
 
پلیٹی لیٹس میں خطرناک حد تک کمی
اگلی صبح تک حورین کے پلیٹی لیٹس میں تیزی سے کمی واقع ہونا شروع ہو گئی جو پہلے 70 ہزار ہوئے اور اس کے بعد کچھ ہی گھنٹوں میں 20 ہزار ہو گئے- جس کو دیکھ کر ڈاکٹر کاشف نے فوری طور پر 4 بوتلیں وائٹ سیل کی چڑھانا تجویز کر دیا اور صرف تجویز نہیں کیا بلکہ چڑھوا بھی دیں-
 
11 نومبر کو رات نو بجے کے بعد حورین کے دل کی دھڑکن سست پڑنے لگی جس پر فوری طور پر ڈاکٹر کاشف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ اس وقت او پی ڈی میں تھے تو انہوں نے حورین کو دیکھنے سے منع کر دیا-
 
آئی سی یو میں ڈاکٹر کی غیر موجودگی
والدین کا اپنی سوشل میڈيا پوسٹ کے ذریعے یہ بھی کہنا ہے کہ آئی سی یو میں حورین تھی مگر وہاں نہ تو اے سی چل رہا تھا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر موجود تھا یہاں تک کہ وہاں آکسیجن سلینڈر بھی نہ تھا-
 
 
حورین کی بگڑتی حالت دیکھ کر والدین نے ان کی منتیں کیں کہ ہمیں بچی لے جانے دیں تاکہ ہم ایمبولنس میں اس کو کسی بڑے ہسپتال لے جا سکیں-
 
پیسے کی لالچ میں بچی کی جان لے لی
مگر ہسپتال کی انتظامیہ نے فوری طور پر بچی کو اس وقت تک منتقل کرنے سے روک دیا جب تک کہ اس کے سارے واجبات کا بل بن کر اس کی ادائگی نہ ہو جائے اور اسی کام میں انہوں نے ایک گھنٹہ لگا دیا یہاں تک کہ حورین کی سانسیں اس کا ساتھ چھوڑ گئیں-
 
حورین کی موت پر اس کے والدین کا اداس ہونا ایک فطری امر ہے مگر ان کا سوال ڈاکٹروں سے یہ ہے کہ کیا پیسے کو دیکھ کر ان ڈاکٹروں کا دل مر گیا ہے؟ والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا پیسہ بھی ان کی بچی کو نہیں بچا سکا-
YOU MAY ALSO LIKE: