یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام ممالک صرف اُسی صورت میں
حقیقی ترقی کے ثمرات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جب دنیا بھر کے عوام خوشحال
ہوں گے ۔ سادہ الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ آج اگر چند ممالک ترقی یافتہ
اور خوشحال ہیں تو اُن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ترقیاتی مواقع کا دیگر کم
ترقی یافتہ ممالک سے ضرور تبادلہ کریں ، وگرنہ اُن کی اپنی ترقی کو بھی ہمہ
وقت مختلف چیلنجز کا سامنا رہے گا۔اس کی حالیہ مثال کووڈ۔19 کی وبائی
صورتحال کی ہے جس نے دنیا بھر کے ممالک کو ایک دوسرے سے جڑے رہنے اور
مشترکہ اقدامات کا عملی سبق دیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم بات کھلے رویوں
اور کھلے پن کی آبیاری ہے ،یہی وہ سوچ ہے جس کی بنیاد پر کسی ایک بھی ملک
یا خطے کو پیچھے نہ چھوڑتے ہوئے پائیدار ترقی کی جانب گامزن رہا جا سکتا
ہے۔یہاں دنیا کے بڑے ممالک بالخصوص اقتصادی طاقتوں کا ایک کلیدی کردار
ہےجسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
چین بھی انہی بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہے جن کی عالمی معاشی سرگرمیوں
کو رواں رکھنے میں نمایاں اہمیت ہے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ چین نے حالیہ
برسوں میں ہمیشہ اعلیٰ معیار کے کھلے پن کی بات کی ہے اور اپنے ٹھوس
اقدامات کے ساتھ دنیا بھر کی معیشتوں کو فائدہ اٹھانے کی اجازت دی ہے۔اسی
سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چین نے ابھی حال ہی میں اس بات کا اعادہ کیا کہ
وہ اپنے کھلے پن کے وسیع تر ایجنڈے کو آگے بڑھائے گا اور مزید گہرائی کے
ساتھ چینی طرز کی جدیدیت کے راستے پر عمل کرے گا، اعلیٰ معیار کی کھلی
معیشت کے لیے نئے نظام قائم کرے گا اور دنیا کے ساتھ اپنے ترقی کے مواقع کا
اشتراک جاری رکھے گا۔اس مقصد کے لئے اپنی حالیہ کوششوں میں تیزی لاتے ہوئے
چین نے صنعتوں کی نئی فہرست کے ساتھ ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے
مزید شعبوں کو کھول دیا ہے ، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی زبردست حوصلہ
افزائی ہوئی ہے۔ اس ترمیمی فہرست میں 239 نئی مصنوعات شامل کی گئی ہیں اور
167 موجودہ اشیاء میں ترمیم کی گئی ہے ، جس میں مینوفیکچرنگ سیکٹر اور
پروڈیوسر خدمات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ مالیاتی مارکیٹ کھولنے میں چین نے
اہل غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو 30 جون سے ایکسچینج بانڈ مارکیٹ
میں براہ راست یا کنیکٹوٹی کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔
ان اقدامات کے ذریعے، چین نے دنیا بھر میں مایوس کن سرمایہ کاری رجحانات کے
باوجود غیر ملکی کاروباری اداروں کے لئے اپنی مضبوط کشش کو برقرار رکھا ہے.
انہی کوشششوں کے عمدہ ثمرات یوں برآمد ہو رہے ہیں کہ آج چین میں براہ راست
غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) ، پہلے 10 مہینوں میں سال بہ سال 17.4
فیصد بڑھ کر 168.34 بلین امریکی ڈالر ہو چکی ہے۔ملک نے چائنا انٹرنیشنل
امپورٹ ایکسپو اور چائنا انٹرنیشنل فیئر فار ٹریڈ ان سروسز سمیت دیگر
متواتر عالمی تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے مصنوعات اور خدمات کی سرحد پار
تجارت کو بھی فروغ دیا ہے۔چین کی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شریک ممالک
اور خطوں کے ساتھ مصنوعات کی غیر ملکی تجارت میں بھی سال بہ سال مضبوط نمو
سامنے آئی ہے ، جس میں برآمدات اور درآمدات دونوں میں 20 فیصد سے زیادہ
اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ بیلٹ
اینڈ روڈ انیشی ایٹو 2030 تک دنیا بھر میں 7.6 ملین افراد کو انتہائی غربت
اور 32 ملین افراد کو معتدل غربت سے نکالنے میں مدد دے سکتا ہے جبکہ اس سے
عالمی سطح پر آمدنی میں 0.7 فیصد اضافے میں بھی مدد ملے گی۔ چین آئندہ سال
بین الاقوامی تعاون کے لیے تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے انعقاد پر بھی غور
کر رہا ہے تاکہ ایشیا بحرالکاہل اور دنیا کی ترقی اور خوشحالی کے لیے نئی
تحریک فراہم کی جا سکے۔حقائق کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک مزید کھلا
چین نہ صرف چینی عوام کے لیے بلکہ دنیا کے لئے بھی زیادہ سے زیادہ ترقی اور
خوشحالی لائے گا۔
|