قومی ذرائع ابلاغ میں فی الحال شردھا والکر کے قتل کا بول
بالا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ نت نئے زاویوں سے خبریں آرہی ہیں اوریہ باور کرایا
جارہا ہے کہ ایسا جرم بھارت کی پاون دھرتی پر پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ یہ غلط
ہے کیونکہ اس طرح کے واقعات آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ ان ہمیشہ
عورت مقتول نہیں ہوتی ہے بلکہ کبھی کبھار وہ اپنے شوہر کےقاتلوں کی شریک
کار بھی ہوتی ہے۔ اخلاق و کردار سےعاری اباحیت پرست معاشرے میں یہ اس طرح
کی سفاکی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے ۔ بیشتر واقعات میں قاتل اور مقتول ہم
مذہب ہوتے ہیں۔ مثلاً بارہ سال قبل دہرا دون کے راجیش گلاٹی نے اپنی بیوی
انوپما کا شادی سے گیارہ سال بعد قتل کردیا اور اس کے بہترّ ٹکڑے کرکے اپنے
فریج میں رکھا اور وقفہ وقفہ سے جنگل میں پھینکتا رہا ۔
یہ واقعہ اس لیے نہیں لکھا جارہا تاکہ اعتراض کرنے والوں کوعار دلاکران کا
منہ بند کیا جائے۔ ان سے کہا جائے کہ آفتاب نے تو صرف پینتیس ٹکڑے کیے ہیں
اس لیے وہ کم سفاک ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ آفتاب کی جگہ اگر سوریہ ہوتا تو
یہ ہنگامہ نہیں ہوتا نیز شردھا کے بجائے تمنا ہوتی تب بھی خبر تو بنتی ہے
مگر اتنا زیادہ شور شرابہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کی قتل و غارتگری میں جب جوڑے
کا تعلق مختلف مذاہب سے ہو تا ہے اس پر بحث و مباحثہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں مدھیہ پردیش میں رضوانہ نام کی ایک لڑکی نے سدھارتھ نامی لڑکے
شادی کرلی ۔ آگے چل کر ان میں جھگڑا ہوا تو سدھارتھ نے رضوانہ کو قتل
کردیا ۔ یہ خبر ملت کے ّ میڈیا میں خوب چلی اس لیے کہ مسلم لڑکیوں کے شادی
کرکے ہندو بن جانے پر بجا طور سے تشویش پائی جاتی ہے۔
اس واقعہ کو جس طرح مسلم لڑکیوں میں مذکورہ رحجان کی حوصلہ شکنی کے لیے
استعمال کیا گیا اسی طرح آفتاب کے ہاتھوں شردھا کے قتل کو قومی میڈیا ہندو
لڑکیوں کو مسلمانوں سے شادی کرنے سے روکنے کی خاطر کررہا ہے کیونکہ انہیں
بھی یکساں فکر ستاتی ہے ۔ اس فکر مندی سے قطع نظر بین المذاہب شادی کرنے
والے جوڑوں کا اپنے اپنے مذہب سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ تو مادر
پدر آزاد زندگی گزارتے ہوئے اپنے ہوس کی آگ بجھانے کے لیے ایسے رشتے
استوار کرلیتے ہیں۔ شردھا کے والد نے اسے ’لو جہاد‘ سے جوڑا ہے۔یہ ہندو
لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں مسلمان بنانے کی سازش کا نام ہے۔ آفتاب اور
شردھا کے معاملے میں اول تو نہ ان لوگوں نے شادی کی اور نہ شردھا کو مسلمان
بنایا گیا۔ اس لیے لوجہاد کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا۔
آفتاب اور شردھا بغیر نکاح کے ’لیواِن ریلیشن شپ ‘ کے تحت ساتھ رہ رہے تھے
۔ ان دونوں کو اپنے اپنے مذاہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کیونکہ نہ تو
اسلام اس طرح کے ناجائز رشتے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہندو دھرم اس کو پسند
کرتا ہے۔ یہ تو مغرب زدہ سیکولر دین کا ایک فتنہ ہے جس کو وطن عزیز میں
آئینی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔’ لوجہاد ‘میں لفظِ جہاد ایک مقدس اسلامی اصطلاح
ہے ۔ اس کے تحت بندۂ مومن اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے جد وجہد کر تا
ہے۔ آفتاب نے تو سارے کام شیطان کے بتائے ہوئے راستے پر کیے ہیں اس لیے
اسے جہاد سے منسوب کرنا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شردھا اور آفتاب کے
معاملے کی جڑ زنا بالرضا میں ہے۔ دین اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
قرآن حکیم میں رحمٰن کے (اصلی) بندوں کی یہ صفات بیان کی گئی ہیں:’’وہ
اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان
کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ کام جو کوئی کرے
وہ اپنے گناہ کا بدلہ(سزا) پائے گا‘‘۔ اس آیت میں شرک جیسے گناہِ عظیم کے
بعد قتلِ ناحق اور زنا کا ذکر ہے۔ رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا، کون سا گناہ
سب سے بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے
دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا
ہے؟فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس
نے پوچھا، پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا
کرے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ اس حدیث میں بھی شرک کے علاوہ قتل
اولاد اور زنا کا شمار گناہِ کبیرہ میں کیا گیا ہے۔ دین اسلام میں زنا کی
سزا نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی بتائی گئی ہے۔
سورۂ نور کی پہلی آیت میں فرمایا گیا :’’ (یہ) ایک (عظیم) سورت ہے جسے ہم
نے اتارا ہے اور ہم نے اس (کے احکام) کو فرض کر دیا ہے اور ہم نے اس میں
واضح آیتیں نازل فرمائی ہیں تاکہ تم نصیحت حاصل کرو،‘‘۔ اس تاکید کے بعد
فرمانِ ربانی ہے :’’ زنا کار عورت و مرد میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔ ان پر
اللہ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہرگز ترس نہ کھانا چاہیئے، اگر
تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہو۔ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی
ایک جماعت موجود ہونی چاہیے‘‘۔اس آیت کے بعد پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ
کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد
اور عورت کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔
دورِ جدید میں ان سزاوں کو ظلم کے زمرے میں ڈال کر اس کا ارتکاب کرنے والوں
پر ترس کھاکر ان سے نرمی کرنے کی وکالت کی جاتی ہے ۔ قرآن مجید یہ حکم دیا
گیا ہے کہ تم ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو۔اس سزا کا مقصدمذکورہ
برائی کا قلع قمع کرکے معاشرے کو محفوظ رکھنا ہے۔ دین اسلام میں برسر عام
سزا دینے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں ۔ نام نہاد
مہذب دنیا اسےانسانی حقوق کے خلاف ورزی سمجھتی ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اللہ
سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ سمجھتے ہیں درانحالیکہ اللہ سب
سے زیادہ رؤف رحیم ہے۔ اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اس لیے اگر
کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کر لے تو اسے اسلامی معاشرے میں
زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی
نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے
تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔
اسلام زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔ اس گناہ کبیرہ
کے تئیں نرمی کے سبب آفتاب پونا والا جیسا وحشی درندہ شردھا والکر کا
بہیمانہ قتل کردیتا ہے اور پھر مجرم کے لیے سرِ عام پھانسی کی گہار شروع
ہوجاتی ہے۔ یہ تو ایک واقعہ ہے جسے گوناگوں وجوہات کی بناء پر قومی میڈیا
میں اچھالا جارہا ہے کیونکہ اس میں قاتل مسلمان اور مقتول ہندو ہے۔ یہ قتل
ایک انفرادی عمل ہے جس کا تعلق دین اسلام سے نہیں بلکہ اس کے نافذ نہیں
ہونے سے ہے۔ دہرادون کے جس راجیش گلاٹی کا ذکر اوپر کیا گیا وہ قتل کے بارہ
سال بعد بھی زندہ ہے اور کئی بار پے رول پر باہر آچکا ہے۔ اسلام کے مطابق
اگر اس کو انوپما کے قتل کی پاداش میں کھلے عام سنگسار کردیا جاتا تو
آفتاب جیسے سفاک قاتل کے لیے شردھا کو ہلاک کرنا آسان نہیں ہوتا ۔
اس طرح کی سفاکیت کے پسِ پشت ہندوستانی معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلنے
والی اباحیت اور بے راہ روی کا بڑا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے مغربی اقدار کو
خوشنما بناکر پیش کرکے انہیں قانونی تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔ آفتاب اور
راجیش میں نہ صرف یہ مشترک ہے کہ انہوں نے اپنے زوجہ کے ٹکڑے کرکے جنگل میں
پھینکا بلکہ ان دونوں نے اقبال کیا ہے کہ انہیں اس ترغیب ہالی ووڈ کی فلموں
سے ملی ۔ ان حقائق سے چشم پوشی کرکے آفتاب پونہ والا کی آڑ میں اسلام کو
بدنام کرنے والوں کے سامنے نبی کریمﷺ کی یہ حدیث ہونی چاہیے کہ : ’’ جب
بندہ زِناکرتا ہے تو ایمان اس سےنکل جاتا ہےپس وہ(اس کےسرپر) سائبان کی طرح
ہوتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے‘‘۔
وہ فرد جو علی الاعلان بلا نکاح جنسی تعلق کو اپنا شعار بنالے وہ اسلام کا
نمائندہ نہیں ہوسکتا ۔ اب تو وہ قتل ناحق کا بھی مجرم ہے۔ دین حنیف میں تو
حکم یہ دیا گیا ہے کہ :’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی
بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔دین اسلام تو شہوت کو بھڑکانے والے
داعیات مثلاًعریانیت و فحاشی ، بے پردگی و بے حجابی اور اختلاطِ مرد و زن
پر بھی قدغن لگاتا ہے ۔ آفتاب اگر دین اسلام کا پابند ہوتا تو نہ زنا جیسے
گناہِ کبیرہ قریب جاتا اور نہ قتل ناحق کا ارتکاب کرتا ۔ شردھا جیسی خواتین
کا تحفظ اسلامی نظام کے قیام اور اس کی سزاوں کے نفاذ اور میں مضمر ہے۔
|