علامہ خادم حسین رضوی ؒسچاعاشق رسولؐ

 تحریک لبیک پاکستا کے امیر حافظ سعد حسین رضوی کے مطابق بابا جی (خادم حسین رضوی ؒ)کے تین روزہ عرس کی تقریبات 19نومبر20نومبراور21نومبرکوہونگی جس میں ہمیشہ کی طرح پاکستان بھرسے ہزاروں عقیدت اورعلامہ خادم حسین رضوی سے محبت کرنے والے حاضری دیں گے۔علامہ خادم حسین رضوی پنجاب کے ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ میں موضع نکہ کلاں کے ایک زمیندار اعوان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 22 جون 1966 کو پیدا ہونے والے علامہ خادم حسین رضوی نے پرائمری تک ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور اس کے بعد 80 کی دہائی میں لاہور منتقل ہوگئے۔ علامہ خادم حسین رضوی کے والد کا نام لعل خان اعوان تھا، جن کے دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں وہ گاؤں سے ابتدائی تعلیم کے بعد لاہور منتقل ہوگئے تھے، تاہم مصروفیات کے باوجود گاؤں کا چکر لگاتے تھے۔ خادم رضوی بچپن سے ہی خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کرنے والی شخصیت تھے جبکہ زمیندار گھرانے سے تعلق کے باوجود بھی غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل کی۔ وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے۔ علامہ خادم حسین رضوی جامعہ نظامیہ بھاٹی گیٹ لاہور کے مہتمم بھی رہے ہیں۔ اس سے قبل پیر مکی مسجد لاہور کی بھی امامت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 2007 میں اپنی والدہ کے چہلم میں شرکت کے بعد واپسی پر علامہ خادم حسین رضوی کی گاڑی تلہ گنگ میں حادثے کا شکار ہوئی اور ان کا نچلا دھڑ متاثر ہوا، جس کے بعد سے وہ وہیل چیئر کے ذریعے نقل وحرکت کرتے تھے۔ وہ کئی سال تک محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب رہے، جہاں انہیں منفردانداز بیان کی وجہ سے شہرت ملنا شروع ہوئی۔ انہوں نے مذہبی تعلیم وتدریس جامعہ نظامیہ رضویہ، لاہور سے حاصل کی اور عالم کی ڈگری درس نظامی کی تکمیل کی۔ علامہ خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ برسوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی، جبکہ عام انتخابات 2018 میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔ تحریک لبیک انتخابات کے دوران لاکھوں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ آسیہ بی بی رہائی کے معاملے پر علامہ خادم حسین رضوی اور دیگر ٹی ایل پی قائدین کے خلاف ملک میں احتجاج کے نام پر انتشار پھیلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھاتاہم بعد میں علامہ خادم حسین رضوی کو کئی ماہ جیل کاٹنے اور معافی نامے پر دستخط کیے جانے کے بعد رہا کردیا گیامگرآپ یہاں تک خاموش نہ رہے نومبر2020کے پہلے ہفتے میں فرانس کے ایک ملعون نے آپ ؐ کی شان میں گستاخی کی تو آپ نے ایک مرتبہ پھر اسلام آباد کی جانب سے رخ کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے مذاکرات کے بعد علامہ خادم حسین رضوی نے اسلام آباد میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اسلام آباد میں دھرنے کے دوران آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر لاہور واپس پہنچنے کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے انکے انتقال کی خبر نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے چینلز پر بریکنگ نیوز کے طور پر چلائی گئی مگرآج بھی دل اس بات کوماننے سے انکارکرتاہے کہ آپ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں ہاں دنیاکی نظرسے دیکھیں توآپکے انتقال سے لیکر اب تک علامہ خادم حسین رضوی سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ کے طور پر موجود ہیں انکے انتقال سے پاکستان ایک مخلص محب وطن سے محروم ہوگیا آپ ؒ کی شان میں یہ شعریاد آتاہے۔
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں

علامہ خادم حسین رضوی جوختم نبوۃ کاحقیقی پہرے دارتھا ،اسلام کا سپاہی ،ملک کا محافظ اور دنیائے اسلام کا غیرت و حمیت کا پیکرو راہنما تھا قران مجید کی ایک ایک آیت انکو ایسے یاد تھی جیسے بچپن میں ہمیں پہاڑے یاد ہوا کرتے تھے اپنی تقریروں میں جب وہ قرآن مجید کی آیت ترجمہ اور انقلابی شعر سناکر تفسیر بیان کرتے تو انکے سامنے بیٹھا ہوا لاکھوں کا مجمع بھی لبیک لبیک کے ایسے نعرے لگاتا کہ جذبہ ایمانی پیدار ہوجاتا آپ اسلام کے بہت بڑے سپہ سالار تھے انہوں نے اپنی معذوری کو کبھی بھی اپنی مجبوری نہیں بنایا سڑکوں پر ہوں یا جیل کے اندر ہمیشہ بہادری سے حالات کا مقابلہ کیا ان کی وفات سے ناصرف ٹی ایل پی کارکنوں بلکہ ان کے چاہنے والوں کو بھی دلی صدمہ پہنچا ہے انکی موت سے جو خلا پیدا ہوا وہ تاقیامت پر نہیں ہوسکتا۔اﷲ پاک سے یہی دعاہے آپ کاساتھ نبی مہرباں ؐ کی محفل میں ہواورآپ کی نسبت سے ہماری کشتی بھی پارلگ جائے تاکہ آخرت میں نبی پاک ؐ ہمیں دیکھیں توان کے چہرے پرمسکان سجی ہو۔
 

Rukhsana Asad
About the Author: Rukhsana Asad Read More Articles by Rukhsana Asad: 47 Articles with 24969 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.