الحمد للہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ خالقِ کائنات نے دینِ
اسلام کی صورت میں ہمیں ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا جس کے ذریعے
مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ نے مثالی طرزِ حکمرانی کی بنیاد رکھ کر "ریاستِ مدینہ"
جیسی عظیم اسلامی وفلاحی ریاست قائم فرمائی۔ "ریاست مدینہ" کے اسلامی نظامِ
حکومت سے مراد حکمرانی کا وہ تصوّر ہے، جس میں ایک مملکت اپنے تمام شہریوں
کی جان، مال اورعزّت وآبرو کی حفاظت کرتی ہے۔ اپنے تمام شہریوں کے حقوق کا
یکساں خیال رکھتی ہے اور ان کے ما بین لسانی، مذہبی یا اقتصادی ومعاشرتی
بنیادوں پر امتیاز نہیں کرتی۔
خلفائے راشدین بھی اپنے اپنے ادوارِ خلافت میں اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔
اسلامی نظامِ حکومت کا دائرۂ کار وسیع تر ہو کر دنیا بھر میں پھیلتا چلا
گیا۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل اسلامی نظامِ حکومت کے تحت خلفائے راشدین نے
یتیموں، مسکینوں، بیواؤں اور بزرگ شہریوں کی داد رسی، اور فلاح وبہبود کے
لیے باضابطہ طور پر بیت المال قائم کیا، ظلم وستم کے خاتمے کے لیے عدالتیں
بنائیں، ان میں میرٹ پر ججز تعینات کیے، پانی کی فراہمی کے لیے نہریں
کھدوائیں، مسافروں کی سہولت کے لیے مسافر خانے، لا وارِث بچوں کی پرورش کے
لیے وظائف مقرّر کیے، اور علم کے فروغ کے لیے مدینہ طیبہ میں حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے قائم کردی علمی مرکز "صفہ" کی طرز پر مدارس قائم کیے۔ آج
بھی ہمارے مسلم حکمرانوں کو چاہیے، کہ رسولِ اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے
اَخلاقی کردار اور مثالی طرزِ حکمرانی کو اپنا رول ماڈل بنائیں کیونکہ یہی
وہ خوبیاں ہیں جن کی برکت سے ریاستِ مدینہ امن، محبت اور برداشت کا گہوارہ
بنی۔
آج دنیا کا ہر سیکولر (Secular) حکمران اپنی عوام کو یہ کہتا نظر آتا ہے،
کہ وہ ان کے بنیادی حقوق کا تحفّظ کرے گا، ان کے لیے مفت علاج مُعالجے اور
تعلیم کا بندوبست کرے گا، ان کے لیے روزگار حصول دولت کے زیادہ سے زیادہ
مَواقع فراہم کرے گا ...وغیرہ وغیرہ۔ ان حکمرانوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں
کہتا، کہ ہم اپنی عوام کی دینی واَخلاقی تربیت کریں گے، نیکی کو فروغ دیں
گے، برائی سے منع کریں گے، بےحیائی اور برے کاموں پر پابندی لگائیں گے، یہ
باتیں دنیا بھر میں کسی بھی سیکولر جُمہوریت (Secular Democracy) کے نظامِ
حکومت یا سیاسی جماعت کے منشور میں نہیں، جبکہ اس کے برعکس اسلامی نظامِ
حکومت کی ترجیح ومعیار ہی نفاذِ شریعت کر کے مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی
و روحانی بالیدگی کا اہتمام کر کے ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔
اسلامی نظامِ حکومت کی ترجیحات کو اللہ رب العزّت نے قرآنِ پاک میں بیان
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں حکومت دیں، تو
وه نماز اور ذکوۃ کانظام قائم کریں، اور بھلائی کاحکم کریں، اور برائی سے
روکیں!"۔(الحج، آیت 41) اسلامی نظامِ حکومت کے تحت، مسلم حکمران کو اس بات
کا بھی پابند کیا گیا ہے، کہ وه اپنی رِعایا کے حقوق کی مکمل پاسداری کرے۔
جو حکمران اپنی رِعایا کے حقوق پامال کرے گا اللہ رب العزّت اس پر جنّت
حرام فرما دے گا، تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشادفرمایا: "اللہ تعالیٰ جب کسی
بندے كو رِعایا کا نگران بناتا ہے، اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رِعایا
کے حقوق پامال کرتا ہو، تو اللہ تعالى اُس پر جنّت حرام فرما دیتا ہے"۔ (صحيح
مسلم" كتاب الإيمان)۔ اسلامی نظامِ حکومت کے تحت مسلم حکمران کو، صرف
مسلمان رِعایا ہی کی جان، مال، عزّت وآبرو کے تحفّظ کا حکم نہیں دیا گیا،
بلکہ غیر مسلم رِعایا کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرنے، اور عدل وانصاف سے کام
لینے کا حکم دیا گیا۔ ارشاد خداوندی ہے "اللہ تعالی تمہیں اس بات سے منع
نہیں کرتا کہ جو لوگ دِین کے معاملے میں تم سے نہ لڑے اور تمہیں تمہارے
گھروں سے نہیں نکالا، کہ ان کے ساتھ احسان کرو، اور ان سے انصاف کا برتاؤ
برتو، یقیناً انصاف والے اللہ تعالی کو محبوب ہیں"۔ (سورہ الممتحنہ آیت 8)۔
اسی طرح حضور ﷺ نے غیر مسلم رِعایا کے حقوق کی رِعایت کرتے ہوئے ارشاد
فرمایا: "جس نے کسی ذِمّی پر ناحق تہمت لگائی، بروزِ قیامت اس پر آگ کے
کوڑوں سے حد قائم کی جائے گی"۔
(المعجم الکبیر" باب، مكحول الشامي)
اسلامی نظامِ حکومت، حاکم ومحکوم، امیر وغریب اور رنگ ونسل کی بنیاد پر،
کسی قسم کی تفریق یا عدمِ مُساوات کا ہرگز قائل نہیں، اسلامی نظامِ حکومت
کے اعتبار سے خلفائے راشدین کا دَور، وہ مبارک اور درخشاں دَور ہے، جب حاکم
ومحکوم کے ما بین منصب واقتدار کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی تفاوُت نہ تھا،
جبکہ حاکمِ وقت کو خلیفۃ المسلمین ہونے کے باوُجود بطَورِ تنخواہ ایک عام
مزدور جتنی اُجرت ادا کی جاتی، تھی۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ حاکم
ومحکوم کے ما بین عدمِ مُساوات کے کس قدر قائل تھے، اس کا اندازہ اس بات سے
خوب لگایا جاسکتا ہے، کہ حضرت سيِّدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں: «خرج عمرُ حاجّاً من المدينة إلى مكّةَ إلى أن رجعَ، فما ضربَ فسطاطاً
ولا خباءً، إلّا كان يُلقي الكساءَ والنطعَ على الشجرةِ، ويستظلّ تحتَها»
یعنی "سيِّدنا عمر رضی اللہ عنہ عازمِ حج ہوکر مدینۂ طیّبہ سے مکّہ مکرمہ
کی جانب روانہ ہوئے، آمد ورفت میں آپ کے ليے کوئی سائبان يا خیمہ نہیں
لگایا گیا، جہاں قیام فرماتے، آرام کے وقت اپنے کپڑے وغیرہ کسی درخت پر ڈال
کر خود ہی سایہ کر لیا کرتے"۔
ان واقعات میں ہمارےحکمران طبقے کے لیےبڑی نصیحتیں ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ
سادگی اپنائیں، پروٹوکول (Protocol) کے نام پر اپنے اور عوام کے درمیان
امتیازی خلیج ہرگز حائل نہ ہونے دیں، دینِ اسلام کے درسِ مُساوات کو یاد
رکھیں، شاہ خرچی سے پرہیز کریں، سہولیات اور تنخواہ ایک اوسط درجہ کے ملازم
کے برابر لیں؛ تاکہ انہیں معلوم ہو کہ ان کی عوام کس حال میں جى رہی ہے،
اور انہیں کیا مشکلات دَرپیش ہیں! اور اگر ہمارا حکمران طبقہ یہ سب کچھ
نہیں کر سکتا تو پھر "ریاست مدینہ" کی رٹ لگانا بھی چھوڑ دیں ۔۔۔
|