زندگی میرے لیے ایک مستقل جنگ ہے، پیدائش سے لے کر جوانی تک موت سے لڑنے والی لڑکی جو اپنے والدین کے لیے فخر کا سبب بن گئی

image
 
اللہ تعالیٰ کی ذات بہت عادل ہے جب وہ انسان سے کچھ لیتا ہے تو اس کے بدلے میں اس کو اس کمی کے بدلے میں بہت کچھ ایسی چیزوں سے نواز دیتا ہے جو اس کمی کا احساس کم کر دیتی ہے- حالیہ دنوں میں فیفا ورلڈ کپ کا افتتاح کرنے والے غانم الفتاح کا چرچا ہر طرف ہو رہا ہے جو کہ ریڑھ کی ہڈی کی پیدائشی طور پر ہونے والی معذوری کے سبب مفلوج ہے- مگر اس نے اپنی معذوری کو اپنی کمزوری بنانے کے بجائے اس کو اپنی طاقت بنا لیا اور نہ صرف قاری قرآن بنا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال بن گیا ہے جو کہ کسی کمزوری کے سبب حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں-
 
پیدا ہوتے ہی ڈاکٹروں نے مایوس کر دیا
غانم الفتاح ہی کی طرح ایک اور لڑکی کی کہانی بھی ہیومن آف بمبئی نامی ایک سوشل میڈیا ویب سائٹ کے ذریعے ہم تک پہنچی۔ اس لڑکی نے ویب سائٹ پر اپنی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ وہ جب پیدا ہوئی تو اسپینا بیفیڈا مائلو میننگوسیل نامی بیماری میں مبتلا تھی اس بیماری کا جس طرح نام عجیب ہے اسی طرح اس کی علامات بھی بہت عجیب ہوتی ہیں-
 
پیدائشی طور پر اس عجیب وغریب بیماری میں مبتلا ہونے کے سبب اس کے پیدا ہونے پر ڈاکٹروں نے اس کو والدین کو یہ کہہ کر مایوس کر دیا کہ اس کی زندگی کے امکانات بہت کم ہیں-
 
زندگی کے لیے جنگ
ویب سائٹ کے ذریعے اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ زندگی کے لیے لڑنے کا اس کا جزبہ بہت مضبوط تھا- اس حوالے سے اس کے والدین نے اس کو بتایا کہ پیدا ہونے کے بعد چار مہینوں کے دوران اس کی زندگی کو بچانے کے لیے ڈاکٹروں نے اس کے دو آپریشن کیے-
 
image
 
جس کے بعد زندگی تو بچ گئی مگر ڈاکٹروں نے اس کے والدین کو یہ بتا دیا کہ وہ زندگی بھر اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکے گی اور نہ ہی چل سکے گی۔ جس کے بعد اس لڑکی کا کہنا تھا کہ اس نے زندگی کے ہر کام کو ہی عام بچوں کے مقابلے میں دیر سے شروع کیا یہاں تک کہ پہلا لفظ جو اس نے بولا وہ بھی دو سال کی عمر میں بولا-
 
لوگوں کے برے رویے
اپنے زندگی کی کہانی بیان کرتے ہوئے اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں صحت مند لوگ اپنے سامنے کسی معذور کو دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اس کا مزاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں-
 
طرح طرح سے بچے بڑے سب ہی ایسے لوگوں کو زندگی کی دوڑ سے نکالنے کی جدوجہد میں لگ جاتے ہیں تین سال کی عمر میں اس کے والدین اس کو لے کر دہلی آگئے تاکہ اس کو ایک اچھی زندگی دے سکیں-
 
نیا گھر اور نئے خواب
اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہلی جیسے بڑے شہر میں ان کے گھر میں باہر کی طرف کھلنے والی ایک کھڑکی تھی جس میں وہ سارا دن بیٹھی رہتی اور اس سے باہر بچوں کو بھاگتے دوڑتے اور کھیلتے دیکھتی رہتی تھیں-
 
ایک دن بچوں کو کھیلتے دیکھ کر اپنی معذوری کے احساس سے وہ بہت روئيں انہوں نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ بھی ان بچوں کی طرح باہر جانا چاہتی ہے کھیلنا چاہتی ہے-
 
image
 
والدین کا بڑا فیصلہ
اس موقع پر اس کے والدین نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو وہیل چئير ریسنگ کا مشورہ دیا اس کے والدین اس کے لیے وئيل چئير لے کر آئے اور اس کے ساتھ ایک کوچ کی تلاش بھی شروع کر دی جو اس کو وہیل چئير ریسنگ کے لیے تیار کر سکے مگر اس گیم کے عام نہ ہونے کے سبب اب تک ان کو کوئی ٹرینر نہیں مل سکا-
 
جس کی وجہ سے اس کی والدہ نے خود ہی اس کو یہ ٹریننگ دینی شروع کر دی اس لڑکی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے والدین نے اس کو ایک اسپیشل چائلڈ بنانے کے بجائے ایک جنگجو بنا دیا-
 
اس لڑکی نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے یہ بتایا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے اور اپنے وطن کے لیے وہيل چئير ریسنگ میں نہ صرف حصہ لے بلکہ اس کو جیت کر والدین اور اپنے ملک کے نام کو روشن کر سکے-
YOU MAY ALSO LIKE: