ابھی دو روز قبل ہی پاکستان میں ایک دوست سے بات ہو رہی
تھی تو باتوں باتوں میں چین میں حالیہ وبائی صورتحال کا تذکرہ بھی ہوا۔میرے
دوست کے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ چین میں لوگ آج بھی بدستور انسداد وبا
احتیاطی اقدامات پر عمل پیرا ہیں جبکہ دنیا کے دیگر بے شمار ممالک میں "کووڈ
کے ساتھ جینے" کی پالیسی اپنائی جا چکی ہے۔دیکھا جائے تو چین کے اقدامات کی
بنیاد سائنسی اصول اور عوام کو مقدم رکھنا ہے۔کورونا وائرس کے کیسز میں
اضافے کے پیش نظر چین نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کی صحت کے تحفظ کے لیے اپنے
پختہ عزم کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ معاشی اور سماجی ترقی پر کووڈ 19 کے اثرات
کو کم سے کم کرتے ہوئے اپنے وبائی ردعمل کو بہتر بنایا ہے۔
چین نے ہمیشہ انسانی زندگیوں اور صحت عامہ کو ترجیح دیتے ہوئے عوام پر مبنی
ترقیاتی فلسفے کو برقرار رکھا ہے۔اس حوالے سے ابھی حال ہی میں انسداد وبا
سے متعلق 20 اقدامات کو صورتحال کے مطابق ایڈجسٹ کیا گیا ہے اور وسائل کو
وائرس کی منتقلی کے خطرے کو روکنے پر صرف کیا جا رہا ہے۔چینی حکام سائنسی
تفہیم اور شواہد پر مبنی تحقیق کی روشنی میں اپنے اقدامات میں بہتری لا رہے
ہیں لیکن ایک چیز واضح ہے کہ انسداد وبا کی پالیسی میں کوئی نرمی نہیں لائی
گئی ہے جس کا بنیادی مقصد انسانی جانوں کا تحفظ ہے۔ ان موثر اقدامات کی
روشنی میں کووڈ 19 کی موجودہ صورتحال اور وائرس کی مختلف حالتوں کی خصوصیات
کو مد نظر رکھ کر وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے امور کو زیادہ سائنسی اور
درست طریقے سے منظم کیا گیا ہے۔ملک کے متعدد شہروں میں عملی تجربات اور
اعداد و شمار اس ایڈجسٹمنٹ کے پیچھے منطق کی توثیق کرتے ہیں۔ جیسے جیسے
وائرس کی ہیئت تبدیل ہو رہی ہے ،چین کی احتیاطی تدابیر بھی اُسی انداز سے
آگے بڑھ رہی ہیں اور لوگوں کے لیے بھی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔اس کی ایک
حالیہ مثال قرنطینہ کی مدت کو 10 دن سے کم کرتے ہوئے 08 دن تک لانا ہے ۔ اس
پالیسی کے تحت نامزد مقامات پر پانچ دن کا قرنطینہ اور تین دن کا "ہوم
کورنٹائن" شامل ہے جو قریبی رابطے اور بیرون ملک سے آنے والے مسافروں سے
وائرس کے پھیلاؤ کے خطرات کو روکنے کے لئے کافی ہے۔اسی طرح چین کی جانب سے
بین الاقوامی تبادلے اور سفری سرگرمیوں کے حوالے سے بھی اپنے انسداد وبا
ردعمل کو مربوط کیا گیا ہے۔اس ضمن میں باہر سے آنے والی پروازوں کے لئے
سرکٹ بریکر میکانزم کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ چین کا سفر کرنے والے اہم
کاروباری مسافروں اور اسپورٹس گروپس کو قرنطینہ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے
براہ راست کلوزڈ لوپ مینجمنٹ والے مقامات پر منتقل کیا جائے گا۔
چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ وائرس کے خلاف عالمی جنگ اب بھی جاری ہے۔ وبا
کے پیمانے کو روکنے اور وبا کے ردعمل کے دورانیے کو کم کرنے کے لئے ابتدائی
تشخیص، رپورٹنگ، قرنطینہ اور علاج کے اصول پر سختی سے عمل کیا جانا
چاہئے.یہی وجہ ہے کہ چین "ڈائنامک زیرو کووڈ" کی عمومی پالیسی پر سختی سے
عمل پیرا ہے۔انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ تقریباً تین سالوں سے، کووڈ 19
کےخلاف مؤثر ردعمل کی روشنی میں چین نے عوام اور ان کی زندگیوں کو ہر چیز
سے بالا رکھتے ہوئے تمام لازمی اقدامات اپنائے ہیں اور وبا کے باعث اموات
کی شرح اور سنگین کیسز کی انتہائی کم تعداد کو یقینی بنایا ہے۔یہ بھی ایک
حقیقت ہے کہ اگر یہ ٹھوس اقدامات نہ اپنائے جائیں یا کووڈ کے ساتھ جینے کی
پالیسی اپنائی جائے تو 1.4 ارب آبادی والے ملک کے لئے نتائج تباہ کن ہوسکتے
ہیں کیونکہ ملک میں 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے 267 ملین افراد اور 250
ملین سے زائد بچے شامل ہیں. دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والا ملک کے طور پر
جس میں بزرگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے،چین نے دنیا کو ایک پیغام دیا ہے
کہ کسی بھی طرح سے کمزور طبقے کے لیے زندگی کے حق کو نظر انداز نہیں کیا
جائے گا ، چین کبھی بھی اپنے عوام کی صحت یا فلاح و بہبود کی قربانی نہیں
دے گا اور کووڈ 19 پر قابو پانے اور اسے معاشی اور معاشرتی ترقی کے ساتھ
مربوط کرنے کے لئے انتھک کوششیں جاری رکھے گا۔
|