لارا لپہ ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ برائے عزیز و اقارب
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
لارا لپہ لارا لپہ ، لائی اے خدا ، . بچپن میں یہ گانا سنتے تھے اور یہ ابھی بھی آل ٹائم فیورٹ گانا ہے جسے آج بھی لوگ سنتے ہیں.ہمیں اس گانے کے بولوں کے سمجھ سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کی لارا لپہ پالیسی کی وجہ سے سمجھ میں آگئے ہیں کیونکہ اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالا ہر کوئی لارا لپہ کی پالیسی اپناتا ہے اور اس کا شکار زیادہ تر کھلاڑی ہی بنتے ہیں.وہ ڈیپارٹمنٹ جو کھلاڑیوں کے سرپر چل رہا ہے وہ ڈیپارٹمنٹ جس میں کئی سالوں سے براجمان اہلکار و افسران کے گھروں کی چولہے انہی کھلاڑیوں کی سر پر ملنے والی تنخواہوں سے چلتے ہیں ایسے ایسے لارا لپہ کھلاڑیوں کو بھی دیتے ہیں کہ سمجھنے والے جب سمجھ جاتے ہیں تو پھر پانی ان کے سروں سے اوپر گزر چکا ہوتا ہے. اسی ڈائریکٹریٹ میں جب بھی کوئی نیا پی ایم ایس آفسر آتا ہے تو وہ نئے تھانے کے تھانیدار کی طرح "دیوار"کو بھی دوڑانے کی کوشش میں لگ جاتا ہے لیکن پھر وہ "تبدیلی "کا شکار ہو جاتا ہے ، سسٹم کی تبدیلی کے دعویدار بھی اسی سسٹم کا حصہ بن کر "بہت کچھ"کر جاتے ہیں.
بہت کچھ کرنے اور سسٹم کو تبدیل کرنے کے دعویدار پی ایم ایس افسران کا یہ حال ہے کہ گذشتہ روز ایڈمنسٹریٹر پشاور سپورٹس کمپلیکس کے دفتر میں ایک صاحب گھس آئے ہاتھ میں اینڈرائڈ موبائل فون تھا اور اس کے پیچھے ایک اور صاحب بھی گھس آئے ،موصوف کئی دنوں سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں "واکنگ"کی سہولت سے فیض یاب ہونے والوں میں شامل ہیں دفتر میں گھستے ہی اسسٹنٹ کو کہہ دیا کہ ایک پرنٹ نکالنا ہے کم وبیش پانچ بجے شا م کا وقت تھا ، اسسٹنٹ نے کہہ دیا کہ ہمارا پرنٹر خرا ب ہے اس پر موصوف کی تیوری چڑھ گئی ، تاہم ساتھ میں ان کے آنیوالے افسر نے بڑے شان بے نیازی سے صوفے پر بیٹھ کر پائوں پر پائوں رکھ دیا اور کہہ دیا کہ " ایڈمنسٹریٹر "کو کہہ دینا کہ " پی ایم ایس یاسر " آیا ہے جلدی سے پہنچو ، پرنٹ لینا ہے ، اسسٹنٹ نے جواب دیا کہ ہمارا پرنٹر خراب ہے اور ہم کچھ نہیں کرسکتے. اس پر دونوں صاحبان تیوری چڑھا کر باہر نکل گئے.یہ صوبائی حکومت کے پی ایم ایس افسران کا لیول ہے کہ ایک پرنٹ نکالنے کیلئے " اپنی پی ایم ایس افسری "دکھانا پڑ رہی ہیں.ایسے پی ایم ایس افسران سے "تبدیلی "کی توقع رکھنا ، محنث سے بچے کی پیدائش کی توقع رکھنا ہے.بس تقریبا یہی حال سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے افسران کی بھی ہے جو دکھتے اور دکھاتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں.کبھی مجبوری کی عالم میں ، کبھی اعلی افسران کے نام پر ، کبھی سیاسی مداخلت کے نام پر اور کبھی " کلی والی" کے نام پر ،لیکن فائدہ صرف اپنا ہی دیکھتے ہیں اور لوگوں کو لارا لپہ دیتے ہیں.
اب اس سے زیادہ لارے لپے والی بات کیا ہوگی کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جعلی کاغذات پر نہ صرف ڈیلی ویجز کوچز بھرتی ہوئے ہیں بلکہ مستقل ملازمت اختیار کرنے والوں میںبھی بڑے بڑے جعلی کاغذات والے "مہان کوچز"شامل ہیں ، اب تو ایسے کوچزبھی فہرست میں شامل ہیں جن کئی سالوں سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے تنخواہیں لے رہے ہیں مگر ان کی کارکردگی کہیں پر نظر نہیں آتی ، بلکہ بعض تو صرف نام کی حد تک کوچز ہیں لیکن انہیں عوامی ٹیکسوں کا پیسہ دیا جارہا ہے کیونکہ یہی لوگ " گڈ بک" میں شامل ہیں کچھ" کار خاص" ہیں ایسے کارخاص جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں . اب بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ جب سوال کیا جاتا ہے کہ متعلقہ کوچ کدھر ہے تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں بیٹھے "بڑے بڑے جغاردری" قسم کے افسران یہی کہتے ہیں کہ کوچز کو جناح کالج اور فرنٹیئر کالج میں "کوچنگ "کرنے بھیج دیا گیا ہے
.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعلقہ کالجز میں بیٹھی ڈائریکٹر سپورٹس کس مرض کی دوا ہیں اور وہ کس چیز کی تنخواہیں لے رہے ہیں ، چلیں اگر مان لیا کہ متعلقہ کوچز کو ان کالجز میں بھیج بھی دیا جاتا ہے تو پھر انہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ تنخواہیں کیوں دے رہا ہے ، اس کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں ، چلیں یہ بھی چھوڑیں ، کہ دو سال سے اگر والی بال کی خاتون کوچ کہیں پر ٹریننگ دے رہی ہیں تو پھر "والی بال" کی خواتین کھلاڑی تو سامنے آنے چاہئیں لیکن یہاں پر حال یہ ہے کہ انٹر یونیورسٹی اور انٹر کالجیٹ مقابلے تو کروائے گئے ، کتنے دن کروائے گئے ، کتنی خواتین کھلاڑی نے شرکت کی ، یہ ایک الگ موضوع ہے. اگر بہت زیادہ سوال کیا جائے تو پھر"ایماندار" اور "اصول پسند"افسران یہ دعوے کرتے ہیں کہ "غریب " ہیں ، بھائی اگر سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ نے غریبوں کا ٹھیکہ لیا ہے تو پھر اشتہار دیا جائے مساجد میں اعلانات کئے جائیں یا پھر سوزوکی پر چندے والی لائوڈ سپیکر لگا کر اعلان کیا جائے کہ "غریب " غریب " افراد سارے ڈائریکٹریٹ پہنچ جائیں کہ انہیں"بھرتی کروانا" ہے ، یہی وہ لارا لپہ ہے جسے وہ افسران جو "پی ایم ایس افسران "کیساتھ وہ افسران بھی دیتے نظر آتے ہیں جنہیںہر دو سال بعد "اپنی پروموشن"کی فکر لگی ہوتی ہیں .
حال ہی میں دوبارہ ڈیلی ویجز ملازمین کی فہرست میں شامل ہونے والوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی کوچنگ اور کورسز خیر خیریت ہیں ، لیکن وہ ڈائریکٹریٹ کے "گڈ بک" میں شامل ہیں اس لئے ان جعلی کوچز کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا الگ قانو ن ہے.یہی نہیں حال ہی میں بننے والے ڈیلی ویجز کی فہرست میں شاہ طہماس میں کرکٹ کوچ بھی شامل ہیں حالانکہ شاہ طہماس سٹیڈیم میں کرکٹ اکیڈمی نہیں لیکن یہاں پر کرکٹ کوچ تنخواہ لے رہا ہے ، کوچ کہاں ہے ، خدا جانے ، مردان میں اتھلیٹکس کیلئے ٹارٹن ٹریک نہیں لیکن اتھلیٹکس کوچ وہاں پر موجود ہیں ..سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران اسے سیاسی دبائو اور مداخلت بھی کہتے ہیں لیکن اس سپورٹس ڈیپارٹمنٹ میں مستقل ملازمت اختیار کرنے والوں میں ایسے "خواتین کوچز "بھی ہیں جن کے سرٹیفکیٹ باقاعدہ ڈائریکٹر آپریشنز سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کنفرم کئے ہیں کہ یہ تصدیق شدہ سرٹیفیکیٹ ہے لیکن فیڈریشن والے اسے جعلی قرار دیتے ہیں لیکن پھر بھی بجائے اس کے متعلقہ اہلکاروں ، ان کی کنفرمیشن کرنے والے ایچ آر ڈائریکٹر سمیت جعلی دستخط کرنے والوں سمیت متعلقہ اہلکاروں کے خلاف جعلسازی کے ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جاتے ، سات سال قید اور جرمانے ہوتے , لیکن "پی ایم ایس"افسری کا رعب جمانے والے بھی یہاں آکر"بھیگی بلی " بن جاتے ہیں پتہ نہیں اسے درگزر کہتے ہیں یا پھر عوامی ٹیکسوں پر پلنے والے افراد کا بڑا دل ، کہ انہیں اپنا مفاد تو عزیز ہوتا ہے لیکن ان معاملات میں انہیں عوامی مفاد عزیز نہیں ہوتا.
عوامی مفاد کے عزیز ہونے کے ساتھ اب اس سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں "عزیز و اقارب"والے ملازمین کی بھرتی کیلئے بڑے بڑے افسران کوشاں ہیں ، کہ اتنا حق تو ان کا بھی بنتا ہے کہ وہ بھی اس ڈائریکٹریٹ کے وزیر کے نقش قدم پر چلیں . ، اللہ بھلا کرے عاطف خان کا ، جنہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اسے تبدیلی میں اب "عزیز و اقارب"کی بھرتی کا عمل جاری و ساری ہے ،وہ خود بھی "عزیز و اقارب"والے شخصیت ہیں ، اسی وجہ سے اس ڈیپارٹمنٹ میں بھی "عزیز و اقارب"والے ہی چل سکتے ہیں اور جس طرح سے عزیز و اقارب آرہے ہیں لگتا ہے کہ اگلے چند سالوں میں اسے "سپورٹس ڈائریکٹریٹ برائے عزیز و اقارب " ہی کہا جائیگا. اور اس ڈیپارٹمنٹ میں آنیوالے افسران بشمول پی ایم ایس افسران " لارا لپہ"لگاتے ہی گزاریں گے اور دو سال گزرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوگا.
|