اب بس عید آجائے۔۔۔۔

رمضان کا پاک مہینہ رخصت ہونے والا ہے اور روزے داروں کو عید کا انتظار ہے۔ ایسے میں دو تین دن بعد رمضان کے آخری روزے پرعقیدتمندوں کی نگاہیں آسمان میں چاند ڈھونڈیں گی۔ عید کا تہوار دھوم دھام سے منانے کے لئے شہر کی مسلم بستیوں میں جوش اور شہر کے بازاروں میں رونق بنی ہوئی ہے۔لوگ مارکیٹ میں خریداری کرنے میں مصروف ہیں۔جوں جوں عید کا تہوار قریب آ رہا ہے شہر میں چاروں طرف تیاریاں زور پکڑنے لگی ہیں۔ مسلمان بے صبری سے عید کا انتظار کر رہے ہیں ۔ یہ انتظار ٹھیک اسی طرح ہوتا ہے جیسے کوئی طالب علم سال بھر کی پڑھائی کے بعد اپنے امتحان کے نتائج کا انتظار کرتا ہے۔ جب اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ پاس ہو گیا ہے تو اس کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسی طرح مسلمان 30 روزے رکھنے کے بعد عید کا انتظار کرتا ہے۔ اب ہر طرف بھائی چارے ، بڑے پیمانے پر دعا اور ہم آہنگی کی علامت تہوار عید کی تاریخ قریب آ رہی ہے۔ مسلمانوں میں خدا کے تئیں وقف ہونے کا جذبہ تیز ہونے لگاہے۔ مساجد میں پانچوں وقت کی نمازیں اور قرآن کی آیتیں پڑھی جا رہی ہیں ، وہیں فرقہ وارانہ اتحاد کےلئے افطار پارٹی بھی منعقد کئے جا رہے ہیں۔ ممکنہ اکتیس اگست کو ہونے والی عید کے لئے مساجد اور عید گاہ کے آس پاس صفائی ، پانی ، بجلی کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ عید کے موقع پر خصوصی طور پر پسند کی جانے والی کچی سیویاں 50 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہیں۔ حالانکہ سیویاں گھروں میں بھی بنائی جاتی ہیں ، لیکن اس بار مشین سے بننے والی سیویاں کی بھی خاصی خریداری ہو رہی ہے۔اس کے علاوہ کھیر کا میوا اور تیل میں تلی جانے والی اشیاءکی خاصی فروخت ہو رہی ہے۔اس تعلق سے بچے بھی خریداری میں مصروف ہیں اور حال ہی میں ریلیز ہوئی فلم ”ونس اپن اے ٹائم ان ممبئی“ میں اجے دیوگن نے سلطان مرزا کا رول کرتے ہوئے خصوصی طرح کا جو سوٹ پہنا تھا اسے نوجوانوں کے ذریعہ خاصا پسند کیا جا رہا ہے۔جبکہ عید کے موقع پر خواتین کی طرف سے خصوصی طور پر کپڑوں پر کشیدہ کاری وغیرہ بنوائی جا رہی ہیں۔ عید کے حوالے سے خواتین کی طرف سے کپڑوں پر کشیدہ اور ایمبراڈری کاڈیزائن بنوانے اور لیس وغیرہ لگوانے کا کام بھی کروایا جا رہا ہے۔ گزشتہ سالوں کی بہ نسبت اس سال یہ کام کافی پسند کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں اس کی اور بھی اہمیت ہے کیونکہ یہاںمختلف زبان ،مختلف مذاہب اور طرح طرح سے عبادت کرنے والے لوگ رہتے ہیں۔ ان سب کے درمیان خیر سگالی،محبت اور یکجہتی کا پیغام دیتی ہے عید۔آج کے دور میں اس انتظار اور عید کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ آج لوگوں کے سامنے جدید تکنیک پر منحصر” رَف اینڈ ٹَف“زندگی ، پرتشدد،پرفتن اور مذہبی امور سے بے پرواہ ماحول ہے۔ ایسے حالات میں پاک زندگی جینا آسان نہیں ہے۔ عید کی خوشی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق زکوٰةوغیرہ دے کر ان غریب مسلمانوں کو بھی عید کی خوشی میں شامل کرتے ہیں جو پوری طرح اس لائق نہیں ، انتہائی غریب ہیں۔عید کے موقعہ پر ایسے غریب لوگ بھی خوشی منا لیتے ہیں اور خود کو عید کی نماز میں بڑے لوگوں کے ساتھ کھڑا پاتے ہیں۔ اگرچہ کسی بھی نماز میں چھوٹے ، بڑے ، امیر ، غریب کا فرق نہیں ہوتا ، لیکن عید کی خوشی الگ معنی رکھتی ہے۔روزے رکھ کرانسان نفس پر فتح حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اس خوشی میں وہ عید مناتا ہے۔تہوار تو اور بھی منائے جاتے ہیں لیکن اس تہوار کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ عید سے پہلے رمضان کا مہینہ ہوتا ہے۔ اس مہینے میں خدا کی طرف سے رحمتوں کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں کیونکہ اس ماہ میں برے سے برا مسلمان بھی خدا سے ڈرنے لگتا ہے اور برائی کا راستہ چھوڑ کرمسجد کی راہ پکڑ لیتا ہے۔ یعنی جو مسلمان کبھی کبھی نماز پڑھتے ہیں وہ بھی مسجد جانے لگتے ہیں۔ روزے نفس پر قابو رکھنے کی علامت ہیں۔ تمام پریشانیوں اور دشواریوں کے باوجود مسلمان روزے رکھتے ہیں اور عید کا انتظار کرتے ہیں۔

عید اور عید کے مہینے کی اس لیے بھی اہمیت ہے کہ اسی مہینے قرآن نازل ہوا تھا۔ اس مہینے میں غریبوں کو بھی خوشیاں منانے کا موقع ملتا ہے۔ جو لوگ سال بھر تک دشمنی رکھتے ہیں وہ بھی اپنی رنجش بھول کر عید پر گلے مل لیتے ہیں۔ اس لئے اسے پیار اور امن کا تہوار مانا گیا ہے۔ دراصل عید کا پیغام وہی ہے جو اسلام کا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کا حق اور انسان کے مالک ہونے کا حق صرف اسے حاصل ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے ، جو سارے جہان کا رب ہے۔ خدا ہی ہر غلطی سے خالی اور کمی سے پاک ہے۔
Meraj Noorie
About the Author: Meraj Noorie Read More Articles by Meraj Noorie: 13 Articles with 19207 views Meraj Noorie Mehsaul Runni Saidpur Sitamarhi-Bihar. Born at Mehsaul and graduate in History.I am a journalist by profession and now working as a sub e.. View More