جب بچے محفوظ اور بڑے قریب ہوتے تھے، کراچی کے فلیٹوں میں رہنے والوں کی زندگی کے کچھ یادگار پل

image
 
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے جہاں پر سب سے پہلے بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب فلیٹ بنا کر عوام کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں کراچی میں سب سے زيادہ ایسے رہائشی منصوبے موجود ہیں جو کہ کثیر منزلہ فلیٹوں پر مشتمل ہیں-
 
کراچی کے فلیٹوں میں زندگی کل اور آج
ویسے تو ماضی ہمیشہ ہی سے انسان کے لیے خوابناک ہوتا ہے مگر کراچی کے رہائشیوں کے لیے یہ اس وجہ سے بھی یادگار ہے کہ ماضی میں یہ شہر تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کر رہا تھا اور اس کا شمار پاکستان کے سب سے زيادہ تیزی سے ترقی کرنے والے شہروں میں ہوتا تھا- مگر بدقسمتی سے پھر سیاسی انتشار کے سبب نہ صرف اس شہر کی ترقی کی رفتار سست ہو گئي بلکہ عوام کو بنیادی سہولتیں بھی بھیک کی طرح ملنے لگیں-
 
ماضی میں جب کراچی میں لوگ فلیٹ میں رہتے تھے تو ان کی زندگی آج کی زندگی سے بہت مختلف ہوتی تھی اس وقت کی کچھ خصوصیات کے بارے میں ہم آپ کو آج بتائيں گے جن کو آج بھی پرانے لوگ نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ بے طرح اس وقت کا موازنہ آج کے دور سے کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں-
 
1: فلیٹ میں رہنے والے لوگ ایک خاندان کی طرح ہوتے تھے
فلیٹ سسٹم کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ایک چار دیواری کے اندر تعمیر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان فلیٹ میں رہنے والوں کے درمیان ایک قدرتی تعلق بن جاتا تھا، ماضی میں جب مختلف خاندان فلیٹ میں آباد ہوتے تھے تو حال کی نسبت ماضی میں ان لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے لیے وقت ہوتا تھا اس وجہ سے ان کے درمیان تعلق اور دوستیاں قائم ہو جاتی تھیں- بڑی عمر کے افراد ایک دوسرے کے ساتھ فارغ وقت گپ شپ میں گزارتے تھے خواتین مردوں اور بچوں کو صبح بھیجنے کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتی تھیں نت نئے کھانے بنانے سیکھتی تھیں- اس طرح سے مختلف گھروں میں رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ ایک خاندان جیسا تعلق ہو جاتا تھا مگر آج کے دور میں دیوار کے ساتھ دیوار جڑی ہونے کے باوجود لوگوں کو یہی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے برابر والے مکان میں کون رہتا ہے-
 
image
 
2: بچے شام کے وقت ساتھ کھیل کر بڑے ہوتے تھے
ماضی میں بچے جب گھر سے باہر کھیلتے تھے تو حفاظت کے لیے فلیٹوں کے بزرگ موجود ہوتے تھے جو ان پر نظر رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عصر سے مغرب کے درمیان بچے اپنا وقت فلیٹ سے نیچے والی جگہ پر سائیکلیں چلا کر کرکٹ کھیل کر یا مختلف کھیل کھیلتے ہوئے وقت گزارتے تھے-مگر اب حالات ایسے ہو چکے ہیں جب کہ کسی پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا اور اسی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو گھر سے باہر نکالتے ہوئے ڈرتے ہیں- اس کے علاوہ اب بچے باہر نکل کر کھیلنے کے بجائے موبائل پر اتنے مگن ہو چکے ہیں کہ ان کو اپنے اردگرد کا ہوش ہی نہیں ہے-
 
3: پڑھائی میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے
جب پڑھائی کا وقت ہوتا تھا تو فلیٹ کے قابل اور ذہین بچے اپنے سے کم عمر بچوں کی پڑھائی میں مدد بھی کر دیا کرتے تھے اور اس طرح ان کے درمیان استاد اور شاگرد کا تعلق قائم ہو جاتا تھا-مگر آج کے دور میں جب کہ ہر چیز کو مادیت کے پیمانے پر ناپا جاتا ہے تو کسی سے پڑھائی کی مدد لینے کے لیے بھی پہلے فیس کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے-
 
4: تہوار شان و شوکت سے منائے جاتے تھے
فلیٹوں میں رہنے والوں کے لیے ہر تہوار کو منانے کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ چشن آزادی پر پوری بلڈنگ کو جھنڈیوں سے سجانے کے لیے ہر فلیٹ والے چندہ جمع کرتے تھے اور اس کے بعد ہفتوں پہلے سے جھنڈیاں لگانے کا کام شروع ہوجاتا تھا- اسی طرح عید ہو یا کوئی اور مزہبی تہوار ماضی میں بڑے بوڑھے خواتین مرد اور بچے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ان تہواروں کو منفرد انداز میں منانے کی پلاننگ کی جاتی تھی- مگر اب ایسے اہتمام خال خال ہی نظر آتے ہیں بلکہ فلیٹوں میں رہنے والے افراد کے رابطوں میں فقدان کے سبب اب ایسے تہوار آتے ہیں اور خاموشی سے گزر بھی جاتے ہیں-
 
image
 
5: امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی تھی
گھر سے باہر نکلنے والے کو ماضی میں اس بات کا ڈر نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کم سن بچی کو کوئی اغوا کر کے اس کے ساتھ زیادتی کر کے اس کی لاش کو کہیں ٹھکانے لگا دے گا- ماضی میں لوگوں کو یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ فلیٹ سے باہر نکلنے کی صورت میں کوئی موبائل چھین کر گولی مار دے گا- یہی وجہ ہے کہ لوگ وقت بے وقت گھروں سے نکل کر بیٹھتے تھے ایک دوسرے سے گپ شپ لگاتے تھے اور ایک دوسرے کے خوشی غم میں شرکت کرتے تھے مگر اب یہ سب باتیں خواب ہوئيں-
 
YOU MAY ALSO LIKE: