میں گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک فون آیا۔موبائل فون نمبر
0325-7926734 سے کوئی شخص خود کو CIA کا سب انسپکٹر بتا کر مجھ سے میرا نام
پتہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے نام بتایا اور کہا کہ فرمائیں کیا کہنا ہے۔ جواب
ملا کہ بات کریں اور پھر فون پر ایک بہت ہلکی سی آواز آئی ، انکل میں علی
بول رہا ہوں۔آواز کچھ صاف نہیں تھی۔ میں نے دوبارہ پوچھاکہ کیا نام بتایا
ہے، علی ۔ جی جی۔کون علی، علی یونس یا علی بدر۔ کہنے لگا انکل علی
یونس۔اچھا ہے آپ نے پہچان لیا ورنہ خراب نیٹ ورک کی وجہ سے آواز بہت کم ہے،
کچھ سمجھ ہی نہیں آتا جس کی وجہ سے میں پریشان تھا۔کیا بتاؤں ایک مشکل آ
گئی ہے ۔ میں ٹھوکر سے گزر رہا تھا کہ ان پولیس والوں نے بغیر وجہ کے مجھے
پکڑ لیا ہے۔ پھر جیسے کسی نے اس سے فون چھین لیا۔ اسی شخص کی جو خود کو سب
انسپکٹر کہہ رہا تھا آواز آئی، جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کی گاڑی میں
دو مفرور ملزم بیٹھے تھے ہم نے ریکی کرکے زیر دفعہ 365 انہیں پکڑا ہے ۔ ان
کی مدد کے الزام میں یہ بھی قابو آیا ہے ۔مگر اسے یعنی علی کو چھوڑا جا
سکتا ہے اگر آپ چاہیں ۔ میں نے کہا کہ میں کیوں نہ چاہوں گا۔ بہتر ہے چھوڑ
دیں۔ کہنے لگا جناب میرے ساتھ چار اہل کار ہیں ،آپ کی مہربانی ہے کہ ان کے
لئے کچھ خرچہ دے دیں۔ میں نے کہا اسی سے لے لو۔ اس کے پاس نہیں ہیں۔ پھر وہ
علی فون پر آیا کہ انکل میں نے انہیں کہا ہے کہ میری جیب میں فقط بارہ سو
روپے ہیں۔ آپ ایک بندہ میرے ساتھ میرے گھر پر بھیج دیں، میں پیسے دے دوں
گا۔لیکن یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پیسے یہیں دو۔ مجھے سمجھ نہیں آتا میں کیا
کروں۔ آپ دیکھیں میری عزت کا مسئلہ ہے ، مجھے خاندان میں بدنام ہونے سے بچا
لیں۔سب انسپکٹر دوبارہ مخاطب ہوئے ۔ جناب آپ آ نہیں سکتے تو ایک نمبر
0325-7926676 آپ کو دے رہا ہوں، آپ فوراً ہمیں جاز کیش سے بھیج دیں۔ ہم کل
پانچ آدمی ہیں ، آپ صرف بیس ہزار دے دیں۔ جاز کیش کا سن کر میرا ماٹھا
ٹھنکا کہ یقیناً مجھے کسی فراڈ کا سامنا ہے۔
میرے خاندان میں دو علی ہیں۔ ایک علی بدر جو ذاتی طور پر ایک وکیل ہے اور
ایک نامور سیاستدان بھی۔ یعنی کریلا اور نیم چڑھا۔دنیا داری کے حوالے وہ
ایک تگڑا آدمی ہے۔ وہ کسی سیاسی انتقام میں پولیس کے ہتھے چڑھ سکتا ہے مگر
دیگر حالات میں پولیس اس کا بہت احترام اور اس کے اچھے رویے کی وجہ سے اس
سے پیار بھی کرتی ہے۔ ویسے بھی وہ بہت با اثر ہے۔علی یونس ایک سیدھا سادہ
کاروباری آدمی ہے، کسی جرائم پیشہ کے ساتھ اس کی وابستگی ممکن نظر نہیں آتی
تھی۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتا اور ایک اچھا شہری اور بہت اچھا انسان ہے۔
اس کے بارے کوئی ایسی بات موسوم کرنا ممکن نہیں تھا۔ مگر میں نے احتیاط کی
۔ کچھ اور کہنے کی بجائے میں نے وعدہ کیا کہ اگلے پندرہ منٹوں میں انہیں
رقم بھیج رہا ہوں۔ ان سے گفتگو بند کرنے کے بعد میں نے علی سے رابطہ کیا وہ
بڑے اچھے ماحول میں کسی اچھی جگہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔میں نے اس
فراڈیے کو دوبارہ فون کیا کہ بھائی بتاؤ ٹھوکر پر کس جگہ موجود ہو، میں
ذاتی طور پر وہاں آ رہا ہوں۔کہنے لگا ، وہیں پولیس کے ناکے کے قریب ہی ہم
نے اپنا علیحدہ ناکہ لگایا ہوا تھا۔اب ہم واپس کوتوالی جا رہے ہیں۔ آپ نے
پہلے کہاہوتا تو رک جاتے۔میں نے کہا کہ میں نے رقم دینے کے لئے تمہارے کچھ
پیٹی بھائیوں کی منت کی ہے وہ تمہیں کچھ زیادہ ہی دے کر بھیجیں گے۔ اس کے
بعد میں نے اسے جی بھر کے گالیاں دیں ۔ اپنی زبان بھی گندی کی مگر اس ملک
میں جو فراڈیوں کی جنت ہے اور جہاں تمام ثبوت ہونے کے باوجود کسی کے خلاف
کوئی کاروائی نہیں ہوتی، وہاں انسان کسی کو برا بھلا کہہ کر یا پھر گالیاں
نکال کر ہی اپنا غبار نکال سکتا ہے۔پولیس ہو یا FIA سب مجبوری میں مقدمہ
درج کرتے ہیں وگرنہ ٹرخانے سے بہتر ان کے پاس کوئی حل نہیں ہوتا۔
اس سارے جرم میں ایک تکون ملوث ہے جس کے عناصر ایک دوسرے سے تعاون نہ کریں
تو یہ کا م پایہ تکمیل تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ ان تین عناصر میں ملزم،
موبائل کمپنی اور تفتیشی ادارے شامل ہیں۔پولیس اور FIA کے لوگوں کو پتہ ہے
کہ بعض علاقے یا گاؤں ایسے ہیں کہ جہاں کے لوگ سارے کے سارے اس کام میں
ملوث ہیں۔مقامی اداروں سے ان کی ساز باز ہوتی ہے اور کسی بیرونی مداخلت کی
انہیں پہلے سے خبر ہو جاتی ہے اور وہ فوراً محفوظ مقامات پر منتقل ہو جاتے
ہیں۔کوئی ایک سال پہلے میری ایک عزیز سے ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور کسی
جعلساز نے اس سے پچاس ہزار روپے ہتھیا لئے۔ میں نے FIA کے شعبہ سائبر کرائم
میں باقاعدہ اپنے نام سے کیس رجسٹر کروایا۔ ٹیلی فون نمبرخود ایک دوسرے
ادارے سے ٹریس کروا کر دئیے۔ میں جب بھی تفتیشی افسر سے ملتا یہی پتہ چلتا
کہ ملزم ٹریس کر چکے بس کسی دن چھاپہ مار کر پکڑنا ہے، کیا کریں لاکھوں کیس
رجسٹر ہو چکے ہیں، فرصت ہی نہیں ملتی۔ یہ سلسلہ کئی ماہ چلتا رہا ۔مگر
چھاپہ لگایا نہ جا سکا۔ ملزم چند ہزار ہیں جب کہ کیس لاکھوں کے حساب سے درج
ہیں، میں نے لٹنے والے لوگوں کو FIA کے دفتر میں زاروقطار روتے دیکھا مگر
سرکاری اہلکار شاید ان باتوں کے عادی ہوتے ہیں، وہ کسی کی نہیں سنتے۔ مجھے
یقین ہے کہ میرے ملزم بھی اب تک مک مکا کی نظر ہو چکے ہوں گے۔
موبائل کمپنیوں کو بنکنگ کی اجازت سے عوام کو بھی کافی سہولت ہے مگر ان کی
اس سہولت کا جرمانہ عوام ایسے فراڈ ں کی بہت بڑھتی ہوئی شرح کی صورت ادا کر
رہے ہیں۔وجہ کمپنیاں سم جاری کرتے ہوئے تصدیق کے تکلف میں نہیں پڑتیں۔ جعلی
ناموں اور جعلی کارڈوں پر بے پناہ سمین جاری ہو جاتی ہیں۔ اگر ان کمپنیوں
کا تصدیقی نظام ٹھیک ہو جائے تو بہت سی عوام لٹنے سے بچ جائے۔ سٹیٹ بنک
کواس سلسلے میں کچھ رراست اقدام اٹھانیں ہونگے تاکہ کمپنیاں اس فراڈ کو
روکنے کی سعی کریں بصورت دیگر کمپنی کا بنک لائسنس معطل کر دیناچائیے۔FIA
کے اہلکاروں کو زیادہ کیسوں کا رونا رونے کی بجائے ، ایک ایک کیس کو باری
باری انجام تک پہنچانا ہو گا۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ دس کیسوں کے
ملزم قابو کر لیں تو ایک ہزار سے زیادہ کیس نبٹ جائیں گے۔ مگر یہ بھی سچ ہے
کہ یہ کام پوری طرح مک مکا سے چل رہا ہے۔ آدمی کس سے بات کرے، یہاں کوئی
حکومت ہے ہی نہیں اور اگر کوئی ہے تو وہ اپنی سیاسی الجھنوں سے مفر پائے تو
عوام کا سوچے۔
|