پاکستان خواتین کی حالت زار قابل رحم ہے ہم اتنے
وحشی ہو چکے ہیں کہ معصوم بچیوں کو بھی درندگی کا نشانہ بنانے سے باز نہیں
آتے کیونکہ قانون کی حکمرانی نہیں ہے سعودی عرب میں اس وقت بہت زیادہ تعداد
میں خواتین شاپنگ پلازوں سمیت سرکاری دفاتر میں کام کررہی ہیں جبکہ مختلف
تفریحی مقامات پر بھی کافی تعداد میں خواتین موجود ہوتی ہیں مجال ہے کسی
مرد کی کہ وہ انہیں آنکھ بھر کردیکھ بھی سکے کیونکہ سعودی عرب میں قانون کی
حکمرانی ہے مجھے جتنا عرصہ ہوگیا یہاں آئے میں نے کسی ایک روز بھی خواتین
پر تشدد کے حوالہ سے کوئی ایک واقعہ بھی نہیں سنا جبکہ پاکستان میں آئے روز
خواتین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے سمندری میں 10سالہ
معصوم بچی کی لاش ملی ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب
میں ہر چوتھی خاتون گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہے اور تو اورکھانے میں نمک
زیادہ ہوجانے پر بھی خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں خواتین
کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے یہ جہالت کی آخری نشانی ہے اور اکثر ایسا وہ
مرد نما ہیجڑے کرتے ہیں جن کے والدین بھی ساری عمر کے دوسرے کے ساتھ دست
گریبان رہے ایسے مرد ہمارے معاشرے کے وہ ناسور ہیں جنہیں دنیا میں بھی ذلیل
و رسوا دیکھا گیا اور آخرت میں تو اسکا بہت بڑا حساب ہوگا ایسے جھگڑیلو
خاندانوں کے بچے بھی ساری عمر خوش نہیں رہ پاتے کیونکہ والدین کا گھر میں
دیکھا ہوا ماحول انہیں بھی ذہنی مریض بنا دیتا ہے گھر سے باہر خواتین سے
دوستیاں کرنے والے انکے ایسے ناز نخرے اٹھاتے ہیں جیسے وہ انکے غلام ہوں
مگر وہی مرد جب خاوند بن کر گھر لوٹتے ہیں تو وہ انسانیت کی تمام حدیں پار
کردیتے ہیں ایسے انسانوں کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہیے جیسے ہمارے ہاں
مشتعل معاشرہ موقعہ پر پکڑے جانے والے ڈاکوؤں سے کرتا ہے سرکاری سطح پر
شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق مطابق کھانا وقت پر نہ دینے کی پاداش میں
بھی خواتین پر تشدد کیا جاتا ہے اور کسی دوسری خاتون کے ساتھ دوستی کا سوال
بھی تشدد کا باعث بنتا ہے گھریلو خواتین پر بے وفائی کا الزام لگا کر بھی
تشددکا نشانہ بنا یا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں شوہر کی نافرمانی پر خواتین
کو سب سے زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے پنجاب کی خواتین پر تشدد کے
حوالہ سے واقعات میں دن بدن اضافہ تشویش کا باعث خواتین کو چاہیے کہ وہ
اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے خلاف میدان میں نکلیں کیونکہ وہ کسی کی غلام
نہیں نکاح کا مطلب بھی غلامی نہیں بلکہ ایک اسلامی معاشرے میں خواتین کو
برابر کے حقوق حاصل ہیں اس کے باوجود بھی جو درندے نما انسان خواتین پر
تشدد کرتے ہیں تو انکے لیے حکومت نے ایک مفت ہیلپ لائن نمبر1043 دیا ہے ہے
جہاں خواتین اپنے موبائل سے مفت کال کرکے اپنے اوپر ہونے والے تشدد یا کسی
بھی جنسی ہراسمنٹ کی شکایت کرسکتی ہے کچھ بہادر خواتین نے ہمت اور بہادری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نمبر پر کالیں بھی کی ہیں جن پر پنجاب حکومت فوری
ایکشن لے رہی ہے خاص کر چوہدری پرویز الہی کی حکومت اس سلسلہ میں بہت کام
کررہے کہ خواتین کو تنگ کرنے والے کے گرد بھی گھیرا ب مزید تنگ کردیا جائے
پاکستان میں خواتین آبادی کا 48.76 فیصد ہیں جنہوں نے پاکستان کی پوری
تاریخ میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن انہیں 1956 سے انتخابات میں ووٹ ڈالنے
کی اجازت ملی پاکستان میں خواتین اعلیٰ عہدوں پربھی فائز رہی ہیں جن میں
وزیر اعظم، سپیکرقومی اسمبلی ، قائد حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزراء،
ججز اور مسلح افواج میں کمیشنڈ عہدوں پر خدمات انجام دیں بے نظیر بھٹو نے 2
دسمبر 1988 کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا تعلیم
کے باعث پاکستان میں خواتین کے مجموعی حقوق میں بہتری بھی آئی ہے مگر ان
مقامات پر جہاں پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد کم ہے تاہم پاکستان کو ایسے
مسائل کا سامنا ہے جہاں خواتین کو تعلیم کے میدان میں پیچھے رکھا جاتا ہے
اس کا تعلق کم سرکاری فنڈنگ، خواتین کے لیے کم اسکولوں اور کالجوں اور بعض
علاقوں میں بیداری اور خواتین کے حقوق کی کمی کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں
خواتین کے داخلے کی کم شرح سے بھی ہے پسماندہ علاقوں میں عصمت دری، غیرت کے
نام پر قتل اورجبری شادیوں کے واقعات اب بھی رپورٹ ہوتے ہیں ان تمام مسائل
کا تعلق تعلیم کی کمی، غربت، پاکستان کا عدالتی نظام، حکومتی حکام کی جانب
سے قوانین پر عمل درآمد میں لاپرواہی اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے
اداروں کی وسیع پیمانے پر ناقص کارکردگی سے سے بھی جڑا ہوا ہے بانی پاکستان
قائد اعظم محمد علی جناح خواتین کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے تھے پاکستان
کی آزادی کے بعد ملک میں خواتین کے خلاف سماجی و اقتصادی ناانصافیوں کے
خاتمے کے لیے فاطمہ جناح جیسی ممتاز رہنماؤں نے اس کام کا کا سنبھالااگر
جنرل ایوب خان منصفانہ انتخابات کرواتے تو پاکستان کی محترمہ فاطمہ جناح
دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی پہلی مسلمان صدر بن جاتیں مگر وہ اس دھچکے
کے باوجودانہوں نے 1950 اور1960 کے دوران خواتین کے لیے بہت سے اقدامات کیے
گئے اور مغربی پاکستان میں پہلی خاتون نمبردار (گاؤں کی سربراہ) بیگم ثروت
امتیاز نے 1959 میں چیچہ وطنی ضلع منٹگمری (اب ساہیوال) کے گاؤں 43/12Lمیں
حلف اٹھایا مگر جیسے جیسے وقت گذرا ہم نے اپنی خواتین کو پرتشدد ماحول میں
اٹھنے کا موقعہ نہیں دیا میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں محترمہ عاصمہ جہانگیر
کو جنہوں نے خواتین کے حقوق پر کھل کر آواز اٹھائی پاکستان میں ضرورت ہے
سعودیہ جیسے قوانین کی تاکہ ہماری خواتین بھی عزت و آبرو کے ساتھ ملک کی
ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور وحشی نیم پاگل قسم کے افراد کو قانون کے
مطابق سزا دی جائے اس سلسلہ میں ہماری عدالتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا
چاہیے تاکہ ہم پر امن ملک بن سکیں اس سلسلہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بہت
اچھا کام کررہی ہے اسکو بھی پاکستان میں مضبوط کیا جائے خاص کر خواتین اس
تنظیم کا حصہ ضرور بنیں ۔
|