رویش ، جرنلزم اور ہم

بھارتی الیکٹرانک صحافت میں اگر کچھ امیدیں تھیں تو وہ ین ڈی ٹی وی سے تھیں جو پچھلے دنوں ختم ہوچکی ہیں کیونکہ اس ٹی وی کے مالکان نے ٹی وی کو ادھانی جیسے سرمایہ دار کے ہاتھوں بیچ دیا اور اپنے آپ کو اس ٹی وی سے علیحدہ کرلیا ، اسکے فوری بعد ین ڈی ٹی وی کی شناخت مانے جانے والے معروف صحافی رویش کمار نے بھی اپنا استعفیٰ دے دیا اور اپنے پیغام میں یہ کہا کہ وہ کسی کے ہاتھ کی کٹھ پتلی بن کر کام کرنا نہیں چاہتے ۔ جی ہاں ، صحافت ایک ایسا سیکشن ہے جہاں پر ادارے اور صحافی دونوں کو آزاد رہنے کی ضرورت پڑتی ہے اگر صحافیوں کے ہاتھ باندھ دئے جاتے ہیں یا مالکان اپنی ضرورت کے مطابق صحافت کروانا چاہتے ہیں تو اسے انڈیپنڈنٹ جرنلزم یا آزاد صحافت نہیں کہتے بلکہ گودی میڈیا کہا جاتاہے ۔ ملک میں رویش کمار جیسے صحافی کا استعفیٰ پہلا نہیں ہے کہ جو کسی کی غلامی میں رہ کر کام کرنے کے لئے راضی نہ ہوئے ، اس سے پہلے بھی کئی صحافیوں نے اپنے مالکوں یا پھر کمپنیوں کے دبائو میںکام کرنے سے انکار کرتے ہوئے صحافت کو چھوڑ دیا تھا ۔ چونکہ رویش کمار ایک جانے مانے صحافی ہیں اس لئے وہ اس وقت چرچہ میں ہیں ۔ رویش کمار کے مستعفی ہونے سے جہاں سیکولر ویالیوز رکھنے والے لوگ پریشان ہیں ان سے کہیں زیادہ پریشان مسلمان دکھائی دے رہے ہیں اور رویش کمار کے استعفیٰ کو سانحہ مان رہے ہیں ۔ لیکن اس سے بڑے کئی سانحہ تو اردو صحافت پر گزرے ہیں یا پھر ایسے کئی مسلم صحافی یا اخبارات جنہوںنے صحافت کے ذریعے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی ہے وہ اپنوں کی بے وفائی اور بے راہ روی کا شکار ہوکر اپنے آپ کو صحافت سے الگ کردیا یا پھر اپنے اخبارات کو بند کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ۔ ین ڈی ٹی وی انڈیا کی بات کریں تو یہ چینل پچھلے کئی سالوں سے نقصان کا شکار تھااور اس نقصان کی بھرپائی کرنا انکے لئے مشکل ہورہاتھا اسی وجہ سے ٹی وی کے مالکان نے قرضوں پہ قرضے لئے اور اسکی ادائیگی کی کوئی صورت باقی نہ رہی تو مجبوراََ اس چینل کو ادھانی جیسے مالداروں کے ہاتھ میں فروخت کرنا پڑا۔ جب مسلمان یا سیکولر طاقتیں جان رہی تھیں کہ اس چینل کو خسارے کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور اسے بچانے کے لئے کوششیں کی جاسکتی ہیں تب بھی انہوںنے کچھ نہیں کیا ۔ صرف اس چینل کو سراہا ، تعریفیں کی ، رویش کا پرائم ٹائم دیکھ کر خوش ہوئے اور مزہ لیا ۔ جبکہ بھارت میں ادھانی کے علاوہ اور بھی کئی سیکولر اور مسلمان مالدار لوگ ہیں جو تنکہ تنکہ جوڑ کر اس چینل کو بچا سکتے تھے ، لیکن نہیں سب کو انٹرٹائنمنٹ چاہئے ، حالانکہ یہ منافع بخش کاروبار تھا مگر اس سمت میں سوچے گا کون ، کیونکہ سب کو شارٹ کٹ اور شارٹ ٹائم میں منافع کمانے کی فکر ہے ۔ چلئے اب بات کرتے ہیں اردو صحافت کی ، کئ اردو اخبارات جن کا مقصد آزاد صحافت رہاہے وہ آج کارپوریٹ کمپنیوں کے ترجمان بن چکے ہیں ، بات چاہے انقلاب ممبئ کی ہویا پھر راشٹریہ سہاراکی ۔ ان اخبارات نے اردو قارئین کے سامنے صحافت کا بہترین نقشہ پیش کیا لیکن خود اردو قارئین نے انکا ہاتھ چھوڑا جس کی وجہ سے یہ اخبارات کارپوریٹ کمپنیوں کا حصہ بن گئے ہیں ۔ جب تک کسی میڈیا چینل ، اخبار یا پھر ڈیجیٹل میڈیا کو عوام کا ساتھ نہیں ملتا اس وقت تک رویش کمار جیسے لوگ قربانیاں دیتے رہیں گے اور میڈیا گودی میڈیا بنتا رہے گا ۔ ہم سب یہ باتیں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کیونکہ ہم خود جانتے ہیں کہ آج کے اس دور میں اخبار یا میڈیا چلانا کتنا جوکھم بھرا کام ہے اور اس کام کو خطرناک مانتے ہوئے بھی صرف اس وجہ سے انجام دیاجاتاہے کہ کبھی نہ کبھی لوگوں کی فکر میں تبدیلی آئیگی اور لوگ اچھے میڈیا کا ساتھ دیں گے ۔ اگر لوگ واقعی میں سچی صحافت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھل کر سامنے آئیں ،اخبارات کے خریدار بنیں، نیوز پورٹلس کے ویوز بڑھائیں ، ڈیجیٹل میڈیا کی سبسرکرائب بنیں ، مالی تعاون کریں ، اپنے آپ کو ان اخبارات کا حصہ اور ذمہ دار مانیں جو آپ کے لئے کام کررہے ہیں ۔ آپ کی زبان ، آپ کی قوم اور آپ کے ملک کی ترجمانی کررہے ہیں ۔ اگر ایسا کرتے ہیں تبھی جاکر ایتھیکل صحافت کی جاسکتی ہے ورنہ پانچ سو دینے پر ادھر ، پانچ سو دینے پر ادھر کام کرنا صحافیوں کی مجبوری بن جائیگی ۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.