چین میں برسراقتدار کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی قیادت میں
چین نے جہاں حالیہ برسوں میں معاشی شعبے میں کرشماتی کامیابیاں حاصل کی ہیں
وہاں سماجی زندگی میں بھی چینی عوام کے بنیادی حقوق اور مفادات کو یقینی
بنایا گیا ہے۔انہی شعبہ جات میں افرادی وسائل کی ترقی اور انسانی حقوق کا
مضبوط تحفظ بھی شامل ہیں۔چین کی اعلیٰ قیادت نے خود کو انسانی حقوق کے ایک
مضبوط محافظ کے طور پر ثابت کرتے ہوئے ملک میں بسنے والی تمام قومیتوں کے
چینی عوام کو متحد کیا ہے اور انسانی حقوق کے احترام ، تحفظ اور اسے ترقی
دینے کے لئے مسلسل کوششیں کی ہیں۔
یہ سی پی سی قیادت کے ہی ثمرات ہیں کہ چین نے انسانی حقوق کے مقصد کو آگے
بڑھاتے ہوئے ہمہ جہت ترقی حاصل کی ہے،اس دوران تاریخی کامیابیاں حاصل کی
گئی ہیں، اور تیز رفتار اقتصادی ترقی اور طویل مدتی سماجی استحکام کا ایک
ایسا کرشمہ تخلیق کیا گیا ہے جو عالمی تاریخ میں شاذ و نادر ہی دیکھا گیا
ہے.گزشتہ دہائیوں کے دوران، چین نے تقریباً 770 ملین دیہی باشندوں کو غربت
سے باہر نکالا ہے، اپنی فی کس ڈسپوزایبل آمدنی میں 180 گنا سے زیادہ اضافہ
کیا ہے، اور ملک میں شہریوں کی اوسط متوقع عمر کو 78.2 سال تک بڑھا دیا ہے۔
چین نے دنیا کا سب سے بڑا سوشل سیکورٹی نیٹ ورک بھی قائم کیا ہے۔ نتیجتاً
کووڈ 19 کی وبائی صورتحال میں بھی دنیا نے دیکھا کہ کیسے چین نے اپنے ہر
ایک شہری کی زندگی کو اہمیت دی ہے ۔
چین نے اس دوران مسلسل ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت کو فروغ دیا ہے اور
اداروں کے نظام کو بہتر بنایا ہے جس کے ذریعے "عوام ملک کے حکمران" کے طور
پر اپنا کردار ادا کرتے ہیں.انہی کوششوں کے ثمرات ہیں کہ آج چین میں انسانی
حقوق کی ترقی کے قابل اعتماد مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ
انڈیکس (ایچ ڈی آئی) ، جسے اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے اوسط متوقع
عمر ، تعلیم کی سطح اور معیار زندگی جیسے اشاریوں کی بنیاد پر مرتب کیا تھا
، چین میں 1990 کے 0.499 سے بڑھ کر 2019 میں 0.761 ہو چکا ، جس نے چین کو
ایچ ڈی آئی کے حوالے سے اعلیٰ ترین کارکردگی کے حامل ممالک میں لا کھڑا کیا
ہے۔
یہ بات بھی قابل زکر ہے کہ چین نے اپنے ملک میں انسانی حقوق کے مقصد کو آگے
بڑھانے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے امور میں بھی گہرائی سے
حصہ لیا ہے اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے تعاون کو وسیع پیمانے پر انجام
دیتے ہوئے عالمی انسانی حقوق کی گورننس میں جامع طور پر اپنا کردار نبھایا
ہے۔چین نے اس حوالے سے 30 سے زائد بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی
توثیق یا منظوری دی ہے، 166 ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو امداد فراہم
کی ہے، اور چھ لاکھ سے زائد افراد کو امدادی مشنز پر بھیجا ہے.چین کی جانب
سے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران امن مشنز پر 50 ہزار سے زیادہ اہلکار بھیجے
گئے ہیں ، یوں چین امن دستوں کی تعداد کے لحاظ سے اقوام متحدہ کی سلامتی
کونسل کے مستقل ارکان میں پہلے نمبر پر ہے۔ کووڈ 19 کی وبائی صورتحال کے
بعد سے ، چین نے دنیا بھر میں کووڈ 19 ویکسین کی منصفانہ اور معقول تقسیم
کو فروغ دینے کے لئے زبردست کوششیں کی ہیں ، اور آج چین دیگر دنیا کو سب سے
زیادہ تعداد میں ویکسین فراہم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔چین اپنے انسداد
غربت کے تجربے کو بھی دنیا کے ساتھ شیئر کر رہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو
غربت کے خاتمے اور ترقی کے حصول کے طریقوں کی تلاش میں مدد فراہم کر رہا
ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ چین نے انسانی حقوق کی ترقی کے ایک ایسے راستے کو
کامیابی سے آگے بڑھایا ہے جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے اور اس کے اپنے
قومی حالات سے مطابقت رکھتا ہے۔یہاں باقی دنیا کے لیے چین سے سیکھنے کا سب
سے بڑا پہلو یہی ہے کہ چین انسانی حقوق کی ترقی میں تنوع کا احترام کرتا ہے
اور یہ کہتا ہے کہ انسانی حقوق کے لئے کوئی کامل "یوٹوپیا" جیسی کوئی چیز
نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ انسانی حقوق میں دوہرے معیار کی مخالفت کرتا ہے،
انسانی حقوق کو سیاسی رنگ دینے اور اسے بطور آلہ استعمال کرنے کی کوششوں کو
مسترد کرتا ہے، اور انسانی حقوق کے نام پر دوسروں کے اندرونی معاملات میں
مداخلت پر اعتراض کرتا ہے۔چین کا موقف بہت واضح اور سادہ ہے کہ ممالک کو
اپنی کوششوں کی بنیاد مساوات اور باہمی احترام پر رکھنی چاہیے، انسانی حقوق
کے مکالمے اور تعاون میں فعال طور پر شامل ہونا چاہیے، اختلافات کو ختم
کرتے ہوئے اتفاق رائے کو بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے سے سیکھنا چاہیے اور
مشترکہ ترقی کو آگے بڑھانا چاہیے۔چین کا یہ نظریہ قابل تقلید ہے جس کی
بنیاد پر انسانی حقوق کی منصفانہ ، شفاف ، معقول اور جامع عالمی گورننس کو
فروغ دیتے ہوئے مشترکہ مستقبل کی حامل "انسانی کمیونٹی" کی تعمیر کو فروغ
دیا جا سکتا ہے۔
|