ہر سال 3 دسمبر معذوروں کے عالمی دن کے طور پر
منایاجاتاہے لیکن میرے حساب سے معذورافرادکوسپیشل یعنی خاص لوگ مخاطب
کرنازیادہ بہترہے کیونکہ یہی لوگ ہمارے اپنے اورہمارے ملک کااثاثہ بھی ہیں
اس لیے جو لوگ انہیں معذورکہتے ہیں تومعذوروہ خاص اشخاص نہیں بلکہ میرے اور
آپ جیسے صحت مند وہ لوگ ہیں جو مادیت پرستی، مفاد پرستی اور نفس پرستیکوسب
کچھ سمجھتے ہیں۔ہرروز سگنل پرایسے خاص لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں جواپنی
ضروریات کی اورپیٹ کی اآگ کو بجھانے کیلئےہماری کار کے شیشے پہ دستک دیتے
ہیں انکی خاطرنہ سہی وہ جس خالق کائنات کے نام پر مانگتے ہیں ان کی خاطر تو
دستک دینے والے ہاتھ پہ دس روپے رکھنے چاہیں مگرہم دروازہ کھول کر اس کو
کارمیں اپنے ساتھ نہیں بٹھا سکتے، چلیں یہ بھی نہ کریں کم ازکم کار سے
اترکر اس سے یہ توپوچھ سکتے ہیں کہ اپنی معذور کے ساتھ کیا وہ عزت کی روٹی
کمانے کو تیارہے اگرایساہے توکوئی صاحب استطاعت اسکی مدد کرے تاکہ وہ شخص
اپنی عزت کی سی زندگی گزارسکے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14
اکتوبر1992 کو منظور ہونے والی قرارداد نمبر 47/3 کے تحت ہر سال 3 دسمبر
کومعذوروں کاعالمی دن منایا جاتا ہے عالمی یوم معذوراںہے دنیا کے دیگر
ممالک کی طرح پاکستان میںبھی کسی بھی طرح سے معذور افراد کی بحالی،ہمدری
اور یکجہتی کیلئے بہت سے سیمینار، کانفرسیں، واک ،مذاکرے اور دیگر پروگرام
منعقد ہونگے دیگر ممالک کا تو پتہ نہیں لیکن پاکستان میں عملی اقدامات کی
بجائے زبانی جمع خرچ کرنے پر زیادہ انحصار کیا جاتا ہے اور پھر ہر خاص دن
گفتند،نشتند ،بر خاستند کے مصداق گذر جاتا ہے ۔۔ویسے تو معذور افراد معاشرہ
بہت سے مسائل کا شکار ہیں لیکن ان مسائل میں سب سے بڑا ،اہم اور بنیادی
مسلہ تعلیم کے مطلوبہ حصول کیلئے بہم رسائی کا نہ ہونا ہے۔پاکستان میں اس
وقت تعلیم کو دو شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں جنرل ایجوکیشن یعنی
نارمل افرد کیلئے اور سپیشل ایجو کیشن مخصوص افرادکیلئے۔اقوام متحدہ کے
2030 تک مقرر کردہ پائیدار سترہ اہداف میںتعلیم چوتھے نمبر پر ہے اور عدم
مساوات کا خاتمہ دسویں نمبر پر ہے تاکہدنیامیں موجودہرکوئی اپنے بنیادی
حقوق سے محروم نہ رہ جائے۔جسمانی اورذہنی لحاظ سے محروم افراد کا بھی تعلیم
پر اتنا ہی حق ہے جتنا کہ نارمل افراد معاشرہ کا لیکن کیا وجہ کہ پاکستان
میں انکی تعلیم کیلئے اس سطح کا کام کیوں نہیں ہورہا جیسے کہ دیگر ممالک
کرتے ہیں۔عالمی یوم معذوراںکا مقصد معذور افراد کے حقوق کے بارے میں لوگوں
کو شعور وآگاہی دینا ،حکومتی سطح پر ان کو برابری کی بنیاد پر سہولیات کی
فراہمی کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنا ہے۔اس قراردادمیں اقوام عالم سے اپیل کی
گئی کہ ہماری دنیا میں معذور باشندے،رشتہ دار،ہم وطن اور پڑوسی اس بات کا
بھرپور حق رکھتے ہیں کہ انہیں بہتر زندگی گزارنے کا حق دیا جائے ۔1982 ء
میں اقوام متحدہ نے معذور افرادکے حقوق کو بنیادی انسانی حقوق کا درجہ دیتے
ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور
روزگار میں برابر کے مواقع فراہم کئیے جائیں ۔علاوہ ازیں اسی سال کو
معذوروں کا عالمی سال قرار دیا گیا ۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کیمطابق وہ
افراد جنہیں طویل المعیاد جسمانی وذہنی کمزوری کا سامنا ہو،جسکی وجہ سے
انہیں معاشرے میں اپنا مناسب کردار ادا کرنے میں رکاوٹ پیش آتی ہو،ایسے
افراد کو معذور کہا جاسکتا ہے ۔ان کوذہنی ،جسمانی،پیدائشی اور حادثاتی ،ان
چار شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔WHO ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی
1998مردم شماری رپورٹ کے مطابق دنیا میں 650 ملین افراد اپاہج ،65 سے 85
فیصد معذور بچے افریقی ممالک میں سکول جانے سے محروم ۔ایک اندازے کے مطابق
پاکستان میں کل آبادی کا 7 فیصد معذور افراد پر مشتمل تھاجبکہ 1998 کی
مردم شماری کے مطابق 2.4 فیصد آبادی معذور ہے۔پاکستان میں19سال بعدیعنی
2017کی مردم شماری کے مطابق یو این ڈی پی نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریباً
6.2 فیصد پاکستانی کسی نہ کسی شکل میں معذوری کا شکار ہیں۔ دوسرے اندازے اس
تناسب کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر HRW نے نشاندہی کی ہے کہ کس
طرح پاکستان میں PWDs کے تخمینے 3.3 ملین سے 27 ملین کے درمیان بڑے پیمانے
پر مختلف ہوتے ہیں۔قوام متحدہ کےادارہ ڈبلیوایچ اوکے مطابق پاکستان ،بھارت
اور بنگلہ دیش خطہ کی10% آبادی کسی نہ کسی معذوری میں مبتلا ہے اور اس دس
فیصد کا 30% بچوں پر مشتمل ہے پاکستان میں ہونیوالی حالیہ مردم شماری کے
مطابق 2.54% بچے معذور ہیں۔ پچھلے عشرے میںپنجاب میں25 سندھ میں3.05،
خیبرپختونخواہ میں21 بلوچستان میں 2.33 اور اسلام آباد میں1.00 لوگ معذور
کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ اتنے اعداد وشمار کے باوجود ایک سوال ذہن میں
اٹھتا ہے کہ کیا ان خاص افراد کیلئے جو زندگی کی چھوٹی سی چھوٹی اور بڑی سے
بڑی ضروریات کیلئے کسی کے محتاج ہیں۔ کیا ہماری حکومت نے خاص لوگوں
کیلئےکوئی فنڈ مختص کیاہے جس سے میڈیکل یا تعلیمی سہولت،روزگار ، بینک میں
ایسے افراد کے اکائونٹ کھلوانے کا کوئی انتظام کیاگیا ہے مستحقین کیلئے
کوئی دیکھ بھال کا بندوبست ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے بھی حکومت کچھ
نہ کچھ کرتی رہی ہے مگران کی ضروریات کے مطابق ایک پالیسی بناکر اس
پرعملدرآمد کروانا بہت ضروری ہے۔
|