آندھر اپردیش میں مسلم پرسنل لاء بورڈکی جانب سے ایک اہم
اجلاس کاانعقادکیاگیاتھا جس میں شادی بیاہ پر اسراف خرچ،جہیز،جوڑے گھوڑے کی
رقم،فضول خرچی سے بچنے کیلئے عوامی بیداری لانے کیلئے مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی کی قیادت میں منسون نکاح تحریک شروع کرنے پر غورکیاگیا۔مسلم پرسنل
لاء بورڈ اس سلسلے میں وقتاًفوقتاً اجلاس کااہتمام کرتاآیاہے اور اس سلسلے
میں کئی پروگرامس بھی منعقدکئے گئے ہیں۔پتہ نہیں کہ ان تما م کوششوں کے
باوجود آج بھی اُمت مسلمہ کی جانب سے شادیوں میں فضول خرچی اور غیر شرعی
عمل پر روک لگانے میں کیوں ناکامی ہاتھ لگ رہی ہے۔کچھ سال قبل ایک امیر
زادی کی شادی کی تقریب میں جاناہواتھا،وہاں پر نکاح اور خطبہ باقاعدہ سُنت
طریقے سے انجام پایا۔اسٹیج پر درجنوں علماء تشریف فرماتھے،لیکن جیسے ہی
علماء کا وفد اسٹیج سے اترکر کھانے کی طرف چلاگیاتو اُس وقت اسٹیج پر محمد
رفیع کی یادوں کا پروگرام شروع ہوا ،اس سلسلے میں جب ہم نے علماء سے دریافت
کیاتو علماء نے کہاکہ ہم کیا کہہ سکتے ہیں،ہماری سننے والاکون ہے،وہ اپنی
خوشی کیلئے کررہے ہیں او روہی اس کیلئے جوابدہ ہیں۔علماء کا یہ جواب سن کر
ہم بھی خاموش ہوگئے۔اس طرح کے کئی شادیاں ہماری نظروں کے سامنے ہورہی
ہیں،جہاں پر باقاعدہ اسراف خرچ ہوتاہے ،نت نئے رسمیں دیکھنے کو مل رہی
ہیں،پہلے تو جوتے چھپائی،ہلدی مرچی کی رسموں کو بدعت میں
شمارکیاجاتاتھا،لیکن اب توپوری اُمت کئی قدم آگے آچکی ہے۔اب ہر شادی میں
ڈھول تماشہ،ڈی جے،گیتوں کے پروگرام،پٹاخے پھوڑنا سب عام ہوتاجارہاہے۔بعض
شادیاں ایسی ہورہی ہیں جہاں پر صرف نکاح مسجدمیں ہورہاہےاور باقی تمام رسم
ورواج بادشاہ سلامت اکبرکے دورمیں انجام دی گئی رسمیں ہیں۔فرق اتناکہ
اکبرنے جودھاکے ساتھ شادی کرتے ہوئے ہندو رسم ورواج کو اپنایاتھالیکن یہاں
اپنوں میں ہی شادی ہونے کے بعد بیشتر رسمیں ہندورسم رواج کے مطابق انجام دی
جارہی ہیں۔اس پرعلماء کا یہ بھی قول ہے کہ اگر رسمیں ہمارے سامنے انجام دی
جائیں تو ہم روک لگاسکتے ہیں یہ تو ہمارے آنے اور جانے کے بعد انجام پائی
جارہی ہیں۔نکاح کوآسان کرنے اور سُنت کے مطابق انجام دینے کیلئے بارہا
جلسوں کاا ہتمام کیاگیاہے،مگر یہ جلسے بھی انہیں شادی محلوں میں انجام دئیے
جاتے ہیں جہاں پر شادی کرنے والے لاکھوں روپئے کرایہ دینے کیلئے تیار رہتے
ہیں۔یہ اور بات ہے کہ موجودہ دورمیں جگہ کی تنگی کی وجہ سے لوگ شادی محلوں
کا انتخاب کررہے ہیں،لیکن انہیں لاکھوں روپئے کے شادی محلوں میں کیا کیا
فتنےپھیل رہے ہیں یہ سب کے علم میں ہے۔صرف نکاح کوآسان کرنے اور سُنت کے
مطابق انجام دینے کیلئے بیانات جاری کئے جائیں تو شائدکوئی فائدہ نہیں
ہوگابلکہ ایسی شادیوں کے خلاف علماء کو سخت فیصلے لینے ہونگے،چاہے وہ غریب
کی شادی ہو یاپھر امیرکی شادی،سب کیلئے ایک قانون شریعت کے مطابق نافذ کرتے
ہوئے عمل میں لانے کی ضرور ت ہے۔ایک طرف شادی بیاہ میں رسم رواج کی بھرمار
تو دوسری طرف کھانے کے معاملے میں جو لاپرواہیاں اختیارکی جارہی ہیں،اُس سے
یقیناً عذاب الہٰی کی اُمیدہی کی جاسکتی ہے۔بڑے بڑے شہروں میں ہورہی شادیوں
میں بھوک کی خاطرنہیں بلکہ شان کی خاطر مختلف قسم کے پکوان لوگوں کے سامنے
رکھے جارہے ہیں اور لوگ ان پر بھوکے جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑجاتے ہیں ،جس میں
نہ کھانے کا لحاظ ہوتاہے اور نہ ہی ادب دیکھاجاسکتاہے۔بعض لوگ تو صرف
تھالیاں بھربھرکر گوشت کھانے کیلئے ہی شادیوں میں پہنچتے ہیں اور اُنہیں
دیکھ کر ایسالگتاہے کہ ان کاکھاناآخری کھاناہوگا،جس وجہ سے وہ خوب کھا رہے
ہیں۔ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے طورپر یہ سمجھنے
کی ضرورت ہے کہ وہ شادیوں کو سادگی سے منائیں ،کیونکہ مسلمان اپنے نبی ﷺکی
سُنتوں پرعمل کرنےوالوں میں سے ہوتاہے اور جو نبی ﷺکی سُنتوں کو ٹھکرائیگا
وہ خودجوابدہ ہوگا۔
|