معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے

محکمہ تعلیم کے حوالے پچھلے دنوں اخبارات میں کچھ خبریں تھیں۔ ٓج میں انہی خبروں کے بارے میں بات کروں گا۔ایک خبر کے مطا ق ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز نے گورنمنٹ فرید کالج پاکپتن کے پرنسپل ساتھ کچھ ناروا اور نامناسب رویہ اپنایا ۔ جس پر اس کالج کے اساتذہ اور طلبا نے ڈپٹی ڈائریکٹر کے اس رویہ پر شدید احتجاج کیا ہے۔یہ کوئی پہلی شکایت نہیں ملکہ ان شکایات کا تسلسل ہے جو اساتذہ کو انتظامی عہدوں پر فائز اپنے ہی ساتھیوں کے خلاف ہوتی ہیں۔یہ بیوروکریٹس والا وہ مکروہ رویہ ہے کہ جس کی نقل ہمارے انتظامی عہدوں پر تعینات اساتذہ عام طور پر اپنا لیتے ہیں۔ ان کوؤں کو غلط فہمی ہو جاتی ہے کہ اب وہ ہنس ہیں، اس لئے اب انہیں ہنس کی چال ہی چلنی ہے۔ افسوس کہ انتظامی عہدوں پر فائز لوگوں کا اب یہ خاس وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ زیر انتظام اداروں کے اساتذہ ،جن سے وہ اٹھ کر آتے ہیں، کو ذاتی ماتحت جانتے اور ان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بھی خود کو ماتحت ہی جانیں ان سے بات چیت میں ان کے مرتبے اور عہدے کا خیال رکھیں ۔َمگر دوسرے محکموں کے افسروں سے یوں ایک جعلی انکساری سے پیش آتے ہیں کہ انسان حیران دیکھتا رہ جاتا ہے۔انکساری بڑی اچھی چیز ہے اگر وہ آپ کی اچھائیوں اور اخلاقی قوتوں کے زیر اثر ہو۔مگر ایسی انکساری کہ جس میں آپ اپنے ان ساتھیوں کو جو آپ کے زیر انتظام اداروں میں کام کرتے ہیں ذلیل اور حقیر سمجھیں،ایک انتہائی غلامانہ ذہن کی عکاس ہے۔ ایسی ذہنیت کے لوگ شرافت سے نا بلد ہوتے ہیں۔ان کا کردار کبھی بھی اعلیٰ درجے کا نہیں ہو سکتایہ لوگ کمینہ خصلت ہوتے ہیں۔ یہ خوشامدی، چغل خور اور بہت بے غیرت ہوتے ہیں۔ یہ اپنے مفاد میں جھکنا، بکنا ، ہاتھ پھیلانا اور گھٹیا پن تک گر جانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ۔مگر اپنے عام ساتھیوں سے ایسا سلوک کرتے ہیں جو کبھی اچھا جانا نہیں جا سکتا۔

ہمارے ایک ساتھی جو انیس گریڈ میں کالج میں ہمارے ساتھ کام کر رہے تھے، اتفاق سے EDO مقرر ہو گئے۔ کالج میں اس وقت پرنسپل سمیت بیس گریڈ کے تین چار لوگ کام کر رہے تھے۔ انیس میں بھی بے بہا لوگ تھے جن میں آدھے سے زیادہ ان سے سینئر تھے۔پرنسپل کے علاوہ دوسرے ا زیادہ تر فراد وہ تھے جنہیں انتظامی عہدے پسند ہی نہیں تھے۔ وہ استاد کے طور پر کام کرنا بہتر سمجھتے اور جانتے تھے۔اتفاق سے کالج میں ایک فنکشن تھا جس میں کوئی صوبائی وزیر تشریف لا رہے تھے۔ EDO صاحب کو با لحاظ عہدہ بھی کالج کی طرف سے مدعو کیا گیا لیکن پرانے ساتھی کے طور پر سب نے انہیں بہت توقیر دی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ محترم وزیر صاحب بھی بڑھ کر انہیں اکاموڈیٹ کیا گیا ہے۔ مخالفین نے کچھ اعتراض بھی کیا، جس کی کسی نے پرواہ نہ کی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ جو ہوا ٹھیک ہوا، ہمارا فرض تھا کہ اپنے ساتھی کو جس قدر زیادہ احترام دیا جا سکے، دیں۔ فنکشن کو گزرے تین چار دن گزرے تو ہمارے کچھ ساتھی کسی کام کے سلسلے EDO کے دفتر گئے۔ EDO صاحب ان سے بڑے روکھے پھیکے انداز میں ملے۔ وہ ساتھی کچھ دیر خاموش رہے پھر پوچھ بیٹھے کہ بھائی کچھ ناراض لگتے ہو۔ جواب ملا، کہ آپ کو پتہ ہے میں اس ضلع میں ایجوکیشن کا سب سے بڑا افسر ہوں۔ وہ پروٹوکول جس کا میں حق دار تھا مجھے نہیں دیا گیا۔کچھ لوگ مجھ سے خوامخواہ فرینک ہو رہے تھے، انہیں احساس ہی نہیں کہ میں ان کے کالج کا کوئی پروفیسر نہیں حکومت پنجاب کا ایک ذمہ دار بڑا افسر ہوں۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جھوٹا کروفر رکھنے والا انتہائی چھوٹا شخص اپنے ساتھیوں میں اپنی عزت گنوا بیٹھا۔کچھ عرصے بعد جب وہ دوبارہ کالج میں واپس آیا تو مثل اچھوت لوگوں کے درمیان موجود تھا۔ اس لئے کہ اب وہ اپنی جھوٹی انا پرستی کے سبباس نے خود لوگوں میں اپنا وقار اور احترام کھویا تھا۔

دوسری خبر ایک سیمینار کے بارے میں تھی کہ جس کے مقررین نے کہا ہے کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی سنگل بک اجارہ داری کے سبب معیار تعلیم گراوٹ کا شکار ہے۔ان مقررین دوستوں سے گزارش ہے کہ یہ بھی ایک وجہ ہے مگر نظام تعلیم جس نہج پر جا رہا ہے وہاں کتاب اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔مجھے کسی ایسی یونیورسٹی یا کالج کا پتہ بتا دیں جہاں استاد کتابوں کو کبھی چھو کر دیکھ لیتے ہوں۔ ہر یونیورسٹی ، ہر کالج اور ہر ادارے میں سے بہت سوں میں پروفیسروں کی تعداد دوسرے تمام اساتذہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔کالجوں میں چند پروفیسر حضرات اگر موڈ آئے تو ہفتے میں ایک یا دو پیڑیڈ پڑھاتے ہیں۔زیادہ تر پیڑیڈ پڑھانا توہین سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں کسی کو تین سے زیادہ پیریڈ پڑھانے پڑیں تو اس کا علیحدہ معاوضہ لیتے ہیں۔ نوے فیصد کتاب کی بجائے کمپیوٹر کو ترجیح دیتے ہیں۔بیس سال پہلے کی بات ہے، ایک معروف کالج میں ایک مضمون کے تین اساتذہ تھے۔ کتاب کے تین حصے کئے ہوئے تھے۔دس سال تک تینوں اپنا اپنا حصہ پڑھاتے رہے۔ایک نیا پرنسپل آیا تو اس نے کچھ رد و بدل کیا۔ تینوں نے انکار کر دیا کہ ہم اس مخصوص حصے کے علاوہ کچھ نہیں پڑھا سکتے۔ پرنسپل نے پی ایچ ڈی ہونے کا طعنہ دیا تو بولے کہ اصل وجہ یہی ہے کہ ہم نے مخصوص موضوع پر تحقیق کی ہے ۔ اس موضوع سے ہٹ کر پڑھانا مشکل ہے۔ بیس سال پہلے صورت حال بہت بہتر تھی، آج صورت حال بہت خراب ہے۔ جو مردان کار ہم میدان عمل میں بھیج رہے ہیں ۔ وہ ایسے ایسے گل کھلا رہے ہیں کہ اس کا احساس ہمیں چند سال بعد اس وقت ہو گا جب تعلیم کی یہ عمارت امریکہ کے ٹون ٹاورز کی طرح زمیں بوس ہو گی۔
 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500582 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More