تعلیمی اداروں کو انڈسٹری نہ بنائیں !

کامران نیازی ایڈوکیٹ
کسی ملک کے حکمران کا اگر اپنے ملک اور قوم سے اخلاص اور نیک نیتی دیکھنی ہو تو وہ حکمران اپنے دستیاب وسائل میں سے زیادہ تر حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ کرتا نظر آئے گا کیونکہ صحت مند اور تعلیم کے زیور سے آراستہ قوم ہی بہتر سوچ کے ساتھ اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتی ہے۔ بیشتر ترقی یافتہ ممالک اور بہتر سوچ رکھنے والے کئی ترقی پزیر ممالک نے ان دو شعبوں پر توجہ دیکر اپنے ملک کو بہتر مستقبل سے ہمکنار کر رکھا ہے لیکن ہمارے زوال کے ک? دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ان دو شعبہ ہائے زندگی کو یکسر نظر انداز کرنا بھی شامل ہے۔ روز اول سے ہمارے حکمرانوں کے لیے یہ دونوں بنیادی شعبے کبھی اہمیت کے حامل رہے ہی نہیں اس لیے وقت کے ساتھ ساتھ جہاں ہم دیگر شعبوں میں انحطاط کا شکار ہو?ے وہیں یہ دونوں شعبے بھی زبوں حال ہوتے گئے۔ بنگلہ دیش جیسا ملک جو ہماری آزادی کے بھی 25 سال بعد ہم سے دو لخت ہو کر آزاد ہوا اس وقت وہاں شرح خواندگی90 فی صد کے لگ بھگ ہے جبکہ ہمیں آزاد ہوئے 75 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اور ہماری تعلیم کی شرح 28 فی صد سے نہیں بڑھ سکی جبکہ اس شرح میں اپنا نام اور ولدیت لکھ سکنے والے بھی شامل ہیں۔ صحت کی سہولیات کا عالم بھی آپ کے سامنے ہے کہ عوام جانوروں کی طرح سرکاری ہسپتالوں کی راہ داریوں پر پڑے ملتے ہیں اور ایک بیڈ پر چار چار مریضوں کا بیک وقت علاج کیا جارہا ہوتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم بحثیت مجموعی من حیث القوم کرپٹ ہو چکے اور یہ سوچ اتنی مضبوط ہو کر پروان چڑھ چکی ہے کہ ہم تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی کرپشن کر کے مال بنانے کو گناہ نہیں سمجھتے۔ کسی وقت میں لولی لنگڑی تعلیم کا معیار نسبتاً بہتر سمجھا جاتا تھا اساتزہ بھی تن دہی سے کام کرتے تھے لیکن انحطاط نے اس شعبے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا میرٹ رفو ہونے لگا اور اس کی جگہ رشوت اور سفارش نے لے لی تعلیمی اداروں میں سیاسی اثرورسوخ اثر انداز ہوا اور یوں تعلیمی ادارے روزگار کے اڈے بنتے گئے جبکہ ہماری اشرافیہ نے اپنے بچوں کے مستقبل محفوظ کرنے کے لیے سیلف فنانس کا فارمولا بتا کر پیسوں کے بلبوتے پر اپنے بچوں کو داخلے دلوائے اس سے جہاں میرٹ کے بخیے اکھڑے وہاں محنت کرنے والے طلباء کے اندر اضطراب پیدا کردیا جواز یہ بنایا گیا کہ سیلف فنانس کے اس فارمولے سے تعلیمی اداروں کی آمدن میں اضافہ ہوگا حالانکہ تعلیمی ادارے کو کماؤ صنعت نہیں ہوتے جو پیسے اور وسائل پیدا کرے بلکہ یہاں مسقبل کے معمار پروان چڑھتے ہیں جو میرٹ کی بنیاد پر ہی آگے آکر ملک کا اثاثہ بن سکتے ہیں اس تباہی کا شکار ہماری اپنی مادر علمی گومل یونیورسٹی اس کی زندہ مثال ہے جس کو ہمارے سیاسی زعماء نے اپنے سیاسی عزائم کے تحت تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کردیا سیاسی وائس چانسلرز نے اپنی سیاسی رفاقت میں اتنی غیر ضروری بھرتیاں کیں کہ اب حالت یہ ہے کہ پچھلے چار سال سے پنشن پر جانے والے کسی اہلکار کو پنشن کی رقم ادا نہیں کی گئی جبکہ ماہانہ تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی بھی تاخیر کا شکار رہتی ہے۔ ارباب اختیار اور یہاں کی مقامی سیاسی قیادت کو گومل یونیورسٹی کے اس معاشی بحران کا حل ڈھونڈنا ہوگا وگرنہ ہم اس عظیم درسگاہ کو مزید تباہی کی طرف دھکیل لے جائیں گے گومل یونیورسٹی اور اس جیسے دیگر دگرگوں تعلیمی اداروں کی بحالی کا سب سے بہتر حل یہ ہے کہ ان اداروں کے Financial deficit کو مرکزی اور صوبائی حکومتیں bail out پیکج کے زریعے ختم کریں جسطرح سٹیل مل کراچی , پی آئی اے یا ریلوے کو اربوں روپے کے امدادی پیکج دے کر رواں رکھا جارہا ہے کیونکہ یہ تعلیمی اداروں کے مستقبل کا سوال ہے جہاں ہماری نئی نسل پروان چڑھتی ہے اور دوسرا اس حوالے سے ایک اعلی سطحی کمیشن ان سیاسی بھرتیوں کی سکروٹنی کرے جو بلا ضرورت ان تعلیمی اداروں میں کی گئیں اور ان غیر ضروری بھرتی ہونے والے ملازمین کو مناسب پنشن دے کر رخصت کیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کا کو انتظام کر سکیں اور وہ تعلیمی ادارے بھی آئندہ کے مزید مالی بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کر لیں لیکن حکومت کو یہ بات بھی زہن نشین رکھنی ہو گی کہ وہ بجٹ میں اپنی دیگر تعیشات کے لیے تو اربوں کے فنڈز مختص کر دیتی ہے لیکن تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کے لیے وہ بجٹ کا انتہائی کم حصہ رکھ کر تعلیمی اداروں اور ہاسپٹلز کو مالی مشکلات سے دوچار کر دیتی ہیں ہماری پہلی ترجیح تعلیم کو آسان اور صحت کو بنیادی انسانی ضرورت سمجھتے ہوئے فوقیت دے گی تب جا کر ہم ان مسائل پر قابو پا سکیں گے

Sohail Azmi
About the Author: Sohail Azmi Read More Articles by Sohail Azmi: 181 Articles with 138014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.