|
|
سردیوں میں جسم کے بعض حصے اور بستر گرم رکھنے کے لیے
استعمال ہونے والی ربڑ سے بنی پانی کی رنگ برنگی بوتلیں اب بھی استعمال میں
ہیں۔ اس بوتل کی ایک تاریخ ہے، جو ہمیں صدیوں پیچھے لے جاتی ہے۔ |
|
موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی جہاں گرم پہناوؤں کا دور
شروع ہو جاتا ہے وہیں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے بھی گیس اور بجلی پر چلنے
والی نت نئی ایجادات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ تاہم اس دور جدید میں بھی آپ
نے کچھ گھرانوں میں خاص طور پر عمر رسیدہ افراد کے پاس گرم پانی کی ربڑ سے
بنی بوتل تو کبھی نا کبھی ضرور دیکھی ہوگی۔ |
|
اس بوتل کی بھی اپنی ہی ایک کہانی اور تاریخ ہے۔ زمانے
کے انداز بدلے تو گرمائش حاصل کرنے کے طریقے بھی بدلے لیکن یہ واحد ایک
ایسی چیز ہے جس کا استعمال مکمل طور پر ترک نہیں کیا جا سکا۔ تو آئیے آج
آپ کو ربڑ سے بنی پانی کی اس گرم بوتل کی تاریخ بتاتے ہیں۔ |
|
|
|
پہلی گرم پانی کی بوتل سرخ |
ایک ٹائر بنانے والے نے 1920ء میں پہلی ربڑ ماڈل گرم
پانی کی ڈھکن والی بوتل متعارف کرائی تھی۔ اس سلسلے میں ایک اشتہار بھی
جاری کیا گیا، جس کا متن کچھ یوں تھا، ''اگر آپ کو تکلیف ہو رہی ہے اور آپ
کی صحت گر رہی ہے تو میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ اپنی جیب میں ہاتھ ڈالیں
اور گرم پانی کی بوتل خریدیں۔ اور پھر صحیح انتخاب کریں: کانٹی نینٹل گرم
پانی کی بوتل!" |
|
اس وقت ایک تجارتی جریدے بھی اس کے بارے میں پرجوش تھا۔
اس نے اپنی ایک تحریر میں لکھا، ''جو اپنے بستر کے سامنے کھڑا نہیں ہوسکا
اور ٹھنڈی چادروں میں کروٹیں بدلنے سے ہچکچاتا ہے، جیسے کسی برفیلی جھیل کے
سامنے ایک غوطہ خور ہو لیکن اب آپ جانتے ہیں کہ ممنوعہ سطح کے نیچے آدھی
رات کا ایک چمکدار سورج ہے۔" ربڑ کی بوتلیں ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ سن
1990 کی دہائی کے آخر تک ہر سال پانچ لا کھ ڈسپنسر تیار کیے جاتے تھے۔ اس
کے بعد ایشیا سے مسابقت کی وجہ سے ان بوتلوں کی پیداوار روک دی گئی تھی۔ |
|
|
|
ہیٹ بال، پیوٹر وارمر اور دیگر بیڈ وارمر |
اس ایجاد سے پہلے بھی لوگوں نے نقل و حمل کے قابل گرمی
کے ذرائع پیدا کرنے کے طریقے تلاش کر لیے تھے۔ نویں صدی کے اوائل میں راہب
لوہے، چاندی یا سونے سے بنی نام نہاد ہیٹ بالز کا استعمال کرتے تھے۔ وہ
دھواں دار چارکول یا گرم مٹی سے بھری ہوتی تھیں اور ان کا مقصد چرچ کی
خدمات کے دوران ٹھنڈے پاؤں اور ہاتھوں کو گرم کرنا تھا۔ |
|
اس مقصد کے لیے پتھروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ ان
پتھروں کو تھوڑی دیر کے لیے آگ میں ڈالا جاتا اور شام کو نم کمبل گرم کرنے
کے لیے بستر پر لے جایا جاتا تھا۔ یہی تکنیک ڈاک لے جانے والی گھوڑا گاڑیوں،
تھیٹر میں یا پھر میز پر کام کرتے وقت استعمال کی جاتی تھی۔ جلنے سے بچنے
کے لیے پتھروں کو کمبل میں لپیٹ دیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی
حادثات ہوتے رہتے تھے۔ |
|
پھر 16ویں صدی کے وسط میں پیوٹر بیڈ وارمر ایجاد
ہوا۔ یہ گرم پانی سے بھرا ہوا تھا اور اسے ایک ڈھکن سے بند کر دیا گیا تھا۔ |
|
دو صدیوں بعد پیوٹر کی جگہ تانبے نے لے لی، جو گرمی کو
بہتر طریقے سے چلاتا ہے۔ تاہم صرف امیر گھرانے ہی اس کا خرچ برداشت کر سکتے
تھے کیونکہ تانبا سستا نہیں تھا۔ غریب گھرانوں میں چادر گرم کرنے کے لیے
سوپ کا برتن بستر پر رکھا جاتا تھا۔ |
|
|
|
شلڈر نامی تانبے کے ایک ماہر نے ڈھکن اور ہینڈل کے
ساتھ تانبے کا پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت بستر گرمانے والا برتن تیار کیا۔
شلڈر پیرس میں رہتا تھا لیکن وہ نم اور یخ بستہ جرمنی سے آیا تھا۔ 11 نومبر
1808ء کو اس نے اپنے ''بیڈ وارمر‘‘ کے پیٹنٹ کے لیے درخواست دی، ایک فائر
پروف پین جو چارکول یا گرم پتھروں سے بھرا جا سکتا تھا۔ یہ فوری طور پر
فراؤون سمر لیکسیکون "Frauenzimmer-Lexikon" نامی ایک کتاب کی طرف سے تجویز
کردہ گھریلو مصنوعات میں شامل ہو گیا۔ یہ کتاب گھریلو خواتین کے لیے تجاویز
پر مشتمل تھی۔ اس کتاب میں آنے کے بعد یہ نیا بیڈ وارمر جلد ہی بہت سے
ٹھنڈے بیڈ رومز میں دستیاب ہو گیا تھا- تاکہ وہ برف کے ٹھنڈے پاؤں اور
کانپتے اعضاء کو گرمائش پہنچا سکے۔ |
|
سردیوں کے لیے تیار |
ان ماڈلز کو پھر گرم پانی کی
بوتل سے بدل دیا گیا، جو آج کل ہمیں نظر آتی ہیں۔ لچکدار
ربڑ آسانی سے منجمد جسم سے چمٹ جاتا ہے۔ یہ بہت سے رنگوں
اور سائزوں میں دستیاب ہیں، جو اونی یا مصنوعی چمڑے کی
کھال سے ڈھکی ہوتی ہیں اورانہیں ایک پیارے سے ریچھ یا بلی
کی شکل میں بھی ڈھال دیا جاتا ہے۔ |
|
|
Partner Content: DW Urdu |