انسانیت کو پاؤں کے نیچے کچل دیا
ان ظالموں نے دین کا چہرہ بدل دیا
صفدریہ حادثہ بھی ہوا ارضِ پاک میں
کلیوں کو پُھول بننے سے پہلے مَسل دیا
سولہ دسمبر 2014 ء کا سورج طلوع ہوا تو اپنے ساتھ ان گنت غم لے کر آیا۔ کسی
کو کیا خبر تھی کہ یہ دن ملک کی تاریخ میں ایک اور دلخراش سانحے کے طور پر
لکھا جائے گا۔ پشاور میں سفاک دہشتگردوں نےمہکتے ہوئےپھول جیسے بچوں کو خون
میں نہلا دیا ۔
کسی بھی گُلستان کی رونق وہاں کے مہکتے پھولوں کے دم سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
باغ کی رونق کو برقرار رکھنے کے لئے ہی مالی ان پھولوں کو انتہائی نگہداشت
میں رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی پتھر دل انسان ان پھولوں کو توڑ کر مسل دے تو
باغ کی رونق کے ساتھ ساتھ پھولوں کی مہک بھی دم توڑ جاتی ہے اور گُلستان
تباہ حال قبرستان کا سا منظر پیش کرتا ہے۔سکول کے شہید بچے بھی اس گلستان
کے وہ غنچے تھے کہ جو ابھی کھلے بھی نہیں تھےکہ کچھ سفاک درندوں نے ان
کلیوں مسل کر گلستان کی مہک کو تہہ خاک ملا دیا۔
آٹھ برس گزر نے پر بھی قوم رنج و غم سےروتی ہوئی نظر آتی ہے۔ قوم یہ سوال
کرتی ہے کہ آخر ان معصوم بچوں سے کیا غلطی سرزد ہوئی تھی جو ان کےجسموں میں
بے دردی سے بارود اتارا گیا۔ ان معصوموں نے کسی کا کیا بگاڑا کہ اڑنے سے
پہلے ہی ان کے پر کاٹے گئے؟ کیا وجہ تھی کہ ننھے پھولوں کو کلاشنکوف کی بے
رحم گولیوں نے بھون ڈالا؟
ہلاکو اور چنگیز کے قتل عام کے قصے تو سنےتھے لیکن تاریخ میں کہیں بھی ہمیں
سوائے سانحہ کربلاء کے ، ایسی بربریت کی مثال نہیں ملتی جہاں چھوٹے ،معصوم
بچوں کو اتنی بے دردی سے موت کی آغوش میں اتارا گیا ہو ۔ وہ مائیں جن کے
جگر گوشے اسکول سے واپس نہیں آئے ، آج تک ان کی راہیں دیکھ رہی ہیں ۔
” پھول تو کچھ دن بہار جاں فزاء دکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے “
آئیے ، ہم سب مل کر اے پی ایس کے ان ننھے شہیدوں کو یاد کریں
آنکھیں برستی ہیں، جگر چھلنی ہیں آج ماؤں کے
گریا پھیلا ہوا ہے، ہر سو رنگ سرخ ہیں ہواؤں کے
گل ہوئے چراغِ آشیاں، کمر ٹوٹی ہے بزرگوں کی
بھیگے پلو ہیں میری ماں، بہنوں کی رداؤں کے
|