اﷲ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہماری نوجوان نسل عقل
و شعور کی بلندیوں کے سفر پر محو پرواز ہے اور اسکی بڑی وجہ تعلیم ہے لیکن
آج بھی کچھ لوگ تعلیم دشمن بنے ہوئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کو تعلیم سے
دور رکھ کر سیاسی کھیل کھیلا جائے ایسے لوگ چمگاڈروں کی طرح ہوتے ہیں دن کو
انہیں ہر چیز الٹ نظر آتی ہے اور جب وہ رات کو الٹے ہوتے ہیں تو پھر شائد
انہیں اپنی طرف سے درست نظر آنا شروع ہوجاتا اصل میں یہی لوگ پاکستان کے
دشمن ،تعلیم کے دشمن اور ہماری نوجوان نسل کے دشمن ہیں جنہیں ہماری آج کی
تعلیمی ترقی نظر نہیں آتی مگر جیسے ہی یہ لوگ الٹی سوچ سے الٹنا شروع ہوتے
ہیں تو پھر انہیں وہی جہالت ،پسماندگی ،غربت،بے روزگاری ،مارکٹائی ،احتجاج
،سڑکیں بلاک اور ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنا درست لگنا شروع
ہوجاتا ہے یہی تعلیم دشمن لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ غلامی کی دلدل میں
پھنسا رہے اور ہم غلام قوم کے سر پر پاؤں رکھ کراپنی مرضی مسلط کرتے رہیں
پاکستان سے باہر رہنے والے لوگ پاکستان کے اندر رہنے والوں سے زیادہ باشعور
اور محب وطن ہیں ایک تو انہیں ملک کی پسماندگی کا دکھ ہے تو دوسرا تعلیم سے
دوری کا افسوس ہے پچھلے چند سالوں سے اسلامیہ یونیورسٹی نے تعلیمی میدان
میں جو انقلاب برپا کیا اس پر بہت سے لوگ دل سے دعائیں کررہے ہیں کہ کاش
پورے پاکستان کے تعلیمی ادارے ایسے بن جائیں میں چونکہ سعودی عرب میں ہوں
اور اس حوالہ سے بہت سے پاکستانیوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں گذشتہ روز
مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے پاس تقریبا 15سال سے پاکستانی ہوٹل (معطم
النور)چلانے والے نور احمد، جدہ میں گگو منڈی کے پاکستانی درد دل رکھنے
والے انجینئرطلعت محمود ،بہاولپور ہیڈ راجکاں 36چک کے غضنفر گگااورمبشر
جبکہ مکہ مکرمہ میں اﷲ یار سمیت بہت سے ایسے پاکستانی جو پاکستان کی ہر خبر
پر نظر رکھتے ہیں کے ٹیلی فون اور میسج آئے کہ یہ بہاولپور یونیورسٹی میں
کیا ہورہا ہے اگر اﷲ تعالی نے ہمیں ایک اچھا ،محنتی،مخلص،تعلیم دوست اور
محب وطن ڈاکٹر اطہر محبوب کی شکل میں وائس چانسلر دے ہی دیا ہے تو پھر کچھ
گھٹیا اور غلیظ قسم کے لوگ اسکے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ
لوگ وی سی کے خلاف نہیں بلکہ تعلیم کے دشمن ہیں جو چاہتے ہیں کہ پاکستانی
اسی طرح جاہل اور گنوار رہیں جسطرح پہلے ہوا کرتے تھے میں نے انہیں مختصر
بتایاکہ اس وقت ڈاکٹر اطہر محبوب کی وجہ سے پاکستان کا تعلیم میں عالمی
درجہ نہ صرف بہتر ہورہا ہے بلکہ ہمارا چولستان بھی سر سبز بن رہا ہے ریاست
بہاولپور کے لوگ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے معاشی مستقبل کو بھی خوشحالی میں
بدل رہے ہیں یہی انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب ہیں جنہوں نے سال 2015
میں خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی رحیم یار خان کی
بطور وائس چانسلر ذمہ داری سنبھالی تو اسوقت پروفیسر شاکر غزالی اسلامیہ
یونیورسٹی بہاولپور کے رحیم یارخان کیمپس کے ڈائریکٹر تھے اور آے روز
یونیورسٹی انتظامیہ کے لئے نئی مصیبت کھڑی کرنے میں مشہور تھے کبھی ہمسایہ
خواجہ فرید کالج جس کے ایک ہاسٹل میں آئی یو بی کا کیمپس قائم تھامیں
شرارتوں اور محاذ آرائی کی وجہ سے ہر دوسرے دن کالج اور یونیورسٹی کے
اساتذہ اور طلبا آمنے سامنے ہوتے دھرنے، مظاہرے، احتجاج،پتھراؤ اور سڑکوں
کی بندش روزمرہ کا معمول تھا انہوں نے غنڈہ گردی کی وجہ سے نہ صرف اپنی
یونیورسٹی بلکہ رحیم یارخان کی ضلعی انتظامیہ کے ناک میں بھی دم کر رکھا
تھا جسکی وجہ سے والدین تعلیم اور اس نظام سے متنفر ہورہے تھے اور کیمپس
میں فیکلٹی 13 اور طلباء وطالبات کی تعداد 600 کے قریب رہ گئی اور رحیم یار
خا ن کیمپس اجڑ گیا اسی دوران خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ
ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر اطہر محبوب جوائننگ دے چکے تھے جسکا وجود ہی نہیں تھا
یونیورسٹی کی جگہ رینجرز اور مقامی قبضہ گروپوں کے قبضے میں تھی لیکن ڈاکٹر
اطہر محبوب کاوشوں اور محنت سے صوبائی حکومت نے انکی بھرپور حمایت اور
حوصلہ افزائی شروع کر دی تھی رحیم یارخان کے سماجی اور تعلیمی حلقے ڈاکٹر
اطہر محبوب کی تعلیم دوست پالیسیوں اور انکی خوبصورت شخصیت کے سحر میں
مبتلا ہو چکے تھے جسکے بعد کوئی رکاوٹ درمیان میں نہ رہی تو پھر شاکر غزالی
جو اس وقت تک شہر میں ایک ناکام، بدمزاج اور لڑاکا شخصیت کے طور پر مشہور
ہو چکے تھے تعلیم دشمن بن کر سامنے آئے موصوف ڈاکٹر اطہر محبوب سے حسد اور
آحساس کمتری میں مبتلا ہوے اور آگے چل کر یہ منفی جذبات اسقدر بڑھ گئے کہ
شاکر غزالی کو اپنے استاد ہونے کا بھی پاس نہ رہا اور انہوں نے ہر حربہ اور
ہتھکنڈا استعمال کرنے کی ٹھان لی تاکہ ڈاکٹر اطہر محبوب کی کامیاب تعلیم
دوست پالیسیوں کو ناکام بنا سکیں ا اسی دوران اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ
اینڈ ٹیکنالوجی ٹیکسلا میں وائس چانسلر کی پوسٹ کے لیے ڈاکٹر اطہر محبوب
تینوں جامعات کی سلیکشن میں ٹاپ تھری کی لسٹ میں شامل تھے اور اسلامیہ
یونیورسٹی بہاولپور کی لسٹ میں آپ کا نام سرفہرست تھا جبکہ ڈاکٹر شاکر
غزالی کا نام بھی تیسرے نمبر پر تھا جو غالبا ایک بیوروکریٹ کی مہربانی تھا
جو انکا شاگرد رہ چکا تھا لیکن حکومت نے میرٹ اور بچوں کے مستقبل کا خیال
رکھتے ہوئے ڈاکٹر اطہر محبوب کو وائس چانسلر تعینات کردیا میرٹ اور تعلیم
کی دھجیاں آڑانے والوں کو یہ بات کیسے ہضم ہوتی اس لیے انہوں نے اپنے مہرے
شاکر غزالی کو استعمال کرنا شروع کردیا لیکن اسکے باوجود اسلامیہ یونیورسٹی
بہاولپور ترقی اور توسیع کے ایک نئے دور میں داخل ہو گئی اساتذہ اور فیکلٹی
کی تعداد دوگنا اور تین گنا ہوگئی وہی رحیم یار خان کیمپس جہاں طلباء داخلہ
لینا گوارا نہیں کرتے تھے سات سو سے سات ہزار طلبہ کا کیمپس بن گیااور
یونیورسٹی خودکفیل ہو گئی جو ایک خواب تھا جو پورا ہوایہاں پر کام رکا نہیں
اور نہ ہی ڈاکٹر اطہر محبوب تھکا بلکہ انہوں نے یونیورسٹی بجٹ 3 ارب سے 8
ارب، شعبہ جات 48 سے 140 کردیے اور پھر ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال بچھا
دیا صرف تین برسوں میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور دنیا کی پہلی 800
یونیورسٹیوں میں شامل ہو چکی تھی ایک طرف ترقی ،خوشحالی اور پیار محبت کا
سفر جاری تھا تو دوسری طرف الٹا لٹکنے والی چمگاڈروں کی سازشیں بھی جاری
تھیں شاکر غزالی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی باز نہ آیا جھوٹی درخواستیں اور
الزامات ہائر ایجوکیشن کمیشن، ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، نیب،ایف آئی اے،
محتسب، گورنر، وزیر اعلٰی اور وزیر اعظم و چیف جسٹس کو بھیجوانی شروع کردی
مگر ہر دروازے پر ناکامی و نامرادی انکا مقدر تھی وائس چانسلر بننے کا خواب
چکنا چور ہو چکا تھالیکن غمِ و غصہ ابھی تک عروج پرہے گذشتہ روز سعودیہ میں
جب ہمارے پاکستانی بھائیوں نے شاکر غزالی کو سوشل میڈیا پر بہاولپور کے ون
یونٹ چوک میں الٹا لٹکے ہو دیکھا تومجھے فون کرکے پوچھا کہ یہ ہمارے بچوں
کے مستقبل کا دشمن کون ہے تب یہاں پر مقیم پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ ایسی
چمگاڈروں کی وجہ سے ہم اپنا ملک چھوڑ کر باہر محنت مزدوری کرتے ہیں خدارا
انہیں الٹا لٹکائیں تاکہ ہماری نسل کسی دوسرے ملک مزدوری کرنے کی بجائے
اپنے ملک میں ہی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خوشحالی کی زندگی بسر کرسکیں ۔
|