|
اطہرمسعود وانی آج کل ملک کا ہر شہری ملکی معیشت کی تباہ حالی اور سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی صورتحال سے پریشان ہے اور ہر محب وطن کو ان خطرات کا ادراک ہے کہ یہ صورتحال ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے حقیقی طور پر سنگین خطرات کا موجب ہے۔پاکستان میں اقتصادی بحران کی سنگین صورتحال درپیش ہے اور معیشت کی ابتری کی یہ صورتحال ملک کے ہر شعبے کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ہر شعبے کے ماہرین اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ اقتصادی بہتری کے لئے ملک میں سیاسی استحکام ایک بنیادی شرط ہے جس کے بغیر ملکی معیشت میں بہتری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنا، اسے جاری رکھنا ایسی '' سیاسی دہشت گردی'' ہے جو ملک کو اقصادی طور پر تباہ کرتے ہوئے زمین سے لگانے کے ہولناک خطرات کا موجب ہو سکتی ہے۔سیاسی عدم استحکام سے ملک میں بیرونی ہی نہیں بلکہ مقامی سرمایہ کاری بھی رک جاتی ہے اور ملکی اقتصادیات کی ریڑھ کی ہڈی یعنی برآمدات کا شعبہ بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتا ہے۔اس مضمون میں ہم کوشش کریں گے کہ ملک میں اقتصادی ابتری ، اس کے عوامل، اس بارے میں معتبر اداروں کے حوالوں کا جائزہ لیتے ہوئے تما م صورتحال کا احاطہ کیا جا سکے۔سب سے پہلے ہم ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ایسا انتشار اور بے یقینی پیدا کی گئی ہے کہ جس سے ہر شعبے کی طرح ملک کی معیشت بھی بہت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور معیشت کی خراب صورتحال میں ہی چند ماہ قبل ہی ملک میں تاریخ کے بدترین سیلاب سے کروڑوں افراد شدید متاثر ہوئے اور ملک کے کئی صوبوں میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔تحریک انصاف عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے نکالے جانے کے بعد سے مسلسل باغیانہ اوردھمکی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں قبل از وقت الیکشن کرانے کا مطالبہ کرتے چلی آ رہی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ الیکشن میں بھاری اکثریت حاصل کر کے ملک کو موجودہ صورتحال سے نکال لیں گے جبکہ ملک میں موجودہ سیاسی اور اقتصادی خرابیوں میں ان کے تقریبا ساڑھے تین سال کے عرصہ حکومت کا بڑا کردار ہے۔عمران خان ملک کو درپیش خطرناک صورتحال کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے کے لئے مہم جوئی کی سیاست کرتے ہوئے ملک میں سیاسی عدم استحکام کو قائم ر کھتے ہوئے خطرناک اقتصادی صورتحال کو مزید خراب کرنے کے درپے نظر آتے ہیں۔ملک میں سیاسی استحکام کے لئے سیاسی عناصر کو بات چیت کے ذریعے معاملات ، مسائل کو حل کرنا چاہئے ، دھمکی اور دھونس کی سیاست سے اصل نقصان صرف اور صرف ملک اور عوام کا ہو رہا ہے اور اب حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ ملک اور عوام اس کے ہولناک نتائج کے متحمل نہیں ہو سکتے۔چند دن قبل پنجاب، کے پی کے، گلگت بلتستان کے وزرائے اعلی اور آزاد کشمیر کے وزیر خزانہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں شکایت کی کہ وفاق کی طرف سے ان کی حکومتوں کو فنڈز نہیں مل رہے ۔ پنجاب اور کے پی کے کی یہ صورتحال نمایاں ہے کہ وہاں ہر سال بجٹ لیپس کر جاتا ہے کہ وہ پورا استعمال ہی نہیں کر پاتے۔المختصر کہ یہ حقیقت واضح ہے کہ مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی تمام مسائل کے حل کی بنیاد ہے ۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بتایا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 6.7 بلین ڈالر پر آ گئے ہیں، جو کہ تقریبا چار سالوں میں اس کی کم ترین سطح ہے۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا کہ پاکستان کا معاشی بحران بنیادی طور پر اس سال کے تباہ کن سیلاب، یوکرائن کی جاری جنگ اور عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ پاکستان نے گزشتہ ہفتے اپنے میچورنگ بانڈز اور دیگر بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے 1 بلین ڈالر کی ادائیگی کی جس کے نتیجے میں غیر ملکی ذخائر میں کمی واقع ہوئی۔پاکستان کو آنے والے مالی سال میں اپنے غیر ملکی قرض دہندگان کو تقریبا 33 بلین ڈالر ادا کرنے ہیں، ملک کو گزشتہ ہفتے اس کی ادائیگی کو پورا کرنے کے لیے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 500 ملین ڈالر موصول ہوئے، ایک "دوستانہ ملک" سے 3 بلین ڈالر کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے کہ جب ملک کو اپنے کرنٹ اکائونٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی امداد کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ اگلے مالی سال کے لیے قرض کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے کافی ذخائر کو یقینی بنانا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ نومبر کے آخر سے زرمبادلہ کے ذخائر میں 784 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے، کمرشل بینکوں کے پاس مزید 5.8 بلین ڈالر ہیں۔ آخری بار زرمبادلہ کے ذخائر جنوری 2019 میں 7 بلین ڈالر سے نیچے گرے تھے جب وہ 6.6 بلین ڈالر تھے۔ پاکستان کو سعودی عرب سے 4.2 بلین ڈالر کا پیکیج ملنے کا امکان ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پاکستان کے لیے بیل آٹ پیکج میں 7 ارب ڈالر کے اجرا کا جائزہ ستمبر سے زیر التوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ 2019 میں 6 بلین ڈالر کے بیل آئوٹ پر اتفاق کیا گیا تھا، اس سال کے شروع میں مزید 1 بلین ڈالر کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اکنامک فریڈم انڈیکس نے اپنی2022 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت 2019 میں سست ہوئی اور 2020 میں سکڑ گئی۔ 2021 میں ترقی دوبارہ شروع ہوئی۔سرمائے کی کمی سے معاشی آزادی کا پانچ سالہ رجحان مزید کمزور ہو گیا ہے۔ کاروبار کی آزادی، مالیاتی صحت اور قانون کی حکمرانی کے سکور میں کمی کی وجہ سے، پاکستان نے 2017 سے معاشی آزادی میں مجموعی طور پر 4.0 پوائنٹس کا نقصان ریکارڈ کیا ہے اور2020 میں معیشت 0.4 فیصد سکڑ گئی۔ انفرادی انکم ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہے، اور سب سے اوپر کارپوریٹ ٹیکس کی شرح کو کم کر کے 29 فیصد کر دیا گیا ہے۔ مجموعی ٹیکس کا بوجھ کل گھریلو آمدنی کے 11.4 فیصد کے برابر ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں حکومتی اخراجات کل پیداوار (جی ڈی پی) کا 22.3 فیصد رہے ہیں، اور بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا اوسطا 7.8 فیصد ہے۔ سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 87.2 فیصد کے برابر ہے۔کاروباری ضوابط میں صوبوں میں ہم آہنگی کا فقدان ہے، اور لیبر قوانین کو یکساں طور پر نافذ نہیں کیا جاتا ہے۔ 2021 میں، IMF نے مالیاتی نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے بنیادی خوراک کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے پر زور دیا، لیکن 2021-2022 کے بجٹ میں اسی طرح کی بہت سی سبسڈیز میں اضافہ ہوا۔پاکستان کے پاس 10 ترجیحی تجارتی معاہدے موجود ہیں۔ تجارتی لحاظ سے اوسط ٹیرف کی شرح 9.6 فیصد ہے، اور 83 نان ٹیرف اقدامات نافذ العمل ہیں۔ معیشت میں ریاستی مداخلت اور سرمایہ کاری کا غیر موثر نظام معاشی حرکیات پر سنگین رکاوٹیں ہیں۔ تجارتی بینکوں کی اکثریت نجی ہے، لیکن بینکنگ سیکٹر ریاستی مداخلت کا شکار ہے۔ اکنامک فریڈم انڈیکس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مالی آزادی اور تجارتی آزادی کچھ وعدہ ظاہر کرتی ہے، لیکن قانون کی یکساں حکمرانی کی مسلسل کمی معاشی آزادی کو خطرہ بناتی ہے۔ پاکستان نسبتا غیر مستحکم جمہوریت ہے جسے فرقہ وارانہ تشدد اور مذہبی انتہا پسندی سے خطرہ ہے۔جائیداد کے حقوق کے حصول اور تصرف کا تحفظ، منظم جرائم، بدعنوانی، کمزور ریگولیٹری ماحول، اور قانونی نظام کی تخریب کاری سے کمزور ہوتا ہے۔ عدلیہ کی سیاست کی جاتی ہے اور یہ انتہا پسند گروہوں اور اعلی سیاسی عہدیداروں کے بیرونی اثر و رسوخ اور دھمکیوں کا شکار ہے۔ عدالتیں سست، پرانی اور ناکارہ ہیں۔ بدعنوانی سیاست، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں عام ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی برقرار ہے۔ سیاسی اور سماجی عدم استحکام معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ ٹیکسٹائل اور ملبوسات سے زیادہ تر برآمدی آمدنی ہوتی ہے، لیکن معیشت کا زیادہ تر حصہ غیر رسمی ہے، اور بے روزگاری زیادہ ہے۔ چین نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) منصوبوں میں بنیادی ڈھانچے اور توانائی میں 60 بلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے جن کو نمایاں دھچکا لگا ہے۔ ورلڈ بنک نے اکتوبر 2022 میں اپنی رپورٹ'' پاکستان ڈویلپمنٹ اپ ڈیٹ'' میں بتایا کہ مالی سال 2024 میں حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو 3.2 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔حالیہ سیلاب کے تناظر میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں غربت مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر قومی غربت کی شرح میں 2.5 سے 4 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہو سکتا ہے، جس سے 5.8 سے 9 ملین کے درمیان لوگ غربت میں دھکیلے جا سکتے ہیں۔ زیادہ مہنگائی غریبوں پر غیر متناسب اثر ڈالے گی۔ میکرو اکنامک خطرات بھی زیادہ ہیں کیونکہ پاکستان کو کرنٹ اکائونٹ کے بڑے خسارے، بلند عوامی قرضوں، اور اپنی روایتی برآمدی منڈیوں سے کم طلب عالمی نمو کے درمیان چیلنجز کا سامنا ہے۔"حالیہ سیلاب سے پاکستان کی معیشت اور غریبوں پر کافی منفی اثرات مرتب ہوں گے، زیادہ تر زرعی پیداوار میں خلل کے ذریعے،" "حکومت کو وقتا فوقتا میکرو اکنامک اصلاحات کے ساتھ ٹریک پر رہتے ہوئے وسیع ریلیف اور بحالی کی ضروریات کو پورا کرنے میں توازن برقرار رکھنا چاہیے۔ غریبوں کے لیے ریلیف کو احتیاط سے ہدف بنانا، مالیاتی خسارے کو پائیدار حدود میں محدود کرنا، مالیاتی پالیسی کے سخت موقف کو برقرار رکھنا، شرح مبادلہ کی لچک کو جاری رکھنا، اور اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر پیش رفت کرنا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں ہونے والی اہم اصلاحات پر پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہوگا۔پاکستان نے پہلے توانائی کی سبسڈی کا سہارا لیا ہے، لیکن ہمارے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات غیر متناسب طور پر بہتر گھرانوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، جبکہ غیر پائیدار مالیاتی اخراجات عائد کرتے ہیں۔ آگے بڑھتے ہوئے، بہتر معاشی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی پر قابو پانا ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے ساتھ بڑھتے ہوئے قیمتوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کو ٹارگٹ ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایشئین ڈویلپمنٹ بنک نے رواں ماہ دسمبر2022 کے دوسرے ہفتے جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال کے لیے پاکستان کا معاشی نقطہ نظر حالیہ سیلاب کی وجہ سے خراب ہو گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال تباہ کن سیلاب نے پاکستان میں معاشی سرگرمیاں متاثر کی ہیں، جو پہلے ہی بڑے مالی اور بیرونی عدم توازن اور دوہرے ہندسے کی افراط زر سے نمٹنے کے لیے استحکام کی کوششوں سے متاثر تھی ۔بلند افراط زر، اور غیر مستحکم''جی ڈی پی''کی نمو میں کمی آنے کی توقع ہے۔سیلاب نے کپاس، چاول اور ملک میں اگائی جانے والی دیگر اہم فصلوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور سیلاب کی وجہ سے آنے والے زرعی سیزن کو بھی خطرہ ہے۔ سیلاب سے صنعت پر خاص طور پر ٹیکسٹائل اور فوڈ پروسیسنگ اور خدمات، خاص طور پر تھوک تجارت اور نقل و حمل پر اثرات مرتب ہوں گے۔پاکستان کے لیے مالی سال 2023 میںکمزور کرنسی ، گھریلو توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ سیلاب سے فصلوں اور مویشیوں کے نقصانات اور سپلائی میں خلل عارضی خوراک کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملکی معیشت کے استحکام اور ترقی میں برآمدات کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ہم پاکستان کی برآمدات کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ملکی برآمدات کے حوالے سے پاکستان بیورو آف شماریات کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2022 میں پاکستان کی کل برآمدات میں 2.4 بلین ڈالر ریکارڈ کیا گیا، گزشتہ ماہ میں بھی یہ 2.4 بلین ڈالر تھی۔ رواں مالی سال (2022-23) کے پہلے دو ماہ کے دوران روپے کے لحاظ سے پاکستان کی برآمدات میں گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں 40.53 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔جاری کردہ عارضی اعداد و شمار کے مطابق، جولائی تا اگست (2022-23) کے دوران برآمدات 1,043,046 ملین روپے ریکارڈ کی گئیں جبکہ جولائی تا اگست (2021-22) میں 742,226 ملین روپے کی برآمدات ہوئیں، جو کہ 40.53 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔سال بہ سال کی بنیاد پر، پاکستان سے برآمدات میں 48.67 فیصد اضافہ ہوا اور اگست 2021 میں 368,814 ملین روپے کی برآمدات کے مقابلے میں 548,326 ملین روپے ریکارڈ کی گئی۔ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر اگست 2022 میں برآمدات میں 10.84 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جولائی 2022 میں 494,720 ملین روپے کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں۔ماہ بہ ماہ کی بنیاد پر اگست 2022 میں برآمدات میں 10.84 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جولائی 2022 میں 494,720 ملین روپے کی برآمدات ریکارڈ کی گئیں۔اگست 2022 کے دوران برآمدات کی اہم اشیا میں نٹ ویئر 99,362 ملین روپے، ریڈی میڈ گارمنٹس 72,897 ملین روپے، بیڈ وئیر 57,055 ملین روپے، سوتی کپڑے 43,159 ملین روپے، باسمتی کے علاوہ چاول 22,569 ملین روپے، کاٹن یارن 679 ملین، تولیے 16,574 ملین روپے، میک اپ آرٹیکلز (تولیے اور بیڈ ویئر کے علاوہ) 13,355 ملین روپے، پٹرولیم کروڈ 12,056 ملین روپے اور چاول باسمتی 9,179 ملین روپے تھے۔ ورلڈ اکنامک آئوٹ لک ڈیٹا بیس کے مطابق پاکستان نے 2016 میں 20.53 بلین امریکی ڈالر کی اشیا کی برآمدات کیں۔ پاکستان کے برآمدی اعدادوشمار کے مطابق، اس کی ٹاپ 10 برآمدات اس کی عالمی ترسیل کی مجموعی مالیت کا 62 فیصد ہیں۔ تاہم، پاکستان کی برآمد اس کی درآمد سے بہت کم ہے اور 2016 میں 26 بلین امریکی ڈالر کا تجارتی خسارہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان کیا برآمد کرتا ہے؟ پاکستان کی برآمدات کاٹن ٹیکسٹائل اور ملبوسات پر غلبہ حاصل کر کے جاری ہے۔ درج ذیل برآمدی مصنوعات کے گروپ 2016 میں پاکستان کی عالمی ترسیل میں سب سے زیادہ برآمدی فروخت کی نمائندگی کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اہم برآمدات میں کپڑا ، کپاس، بنا ہوا لباس،اناج ،چمڑے کی مصنوعات، نمک، چونا، سیمنٹ، پھل، گری دار میوے،مچھلی و دیگر کئی اشیاء شامل ہیں۔ پاکستان کی تشویشناک اقتصادی صورتحال اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ ملکی برآمدات میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے اقدامات کئے جائیں۔برآمدات سے غیر ملکی آمدنی کے ذرائع پیدا ہوتے ہیں، ملکی کرنسی کو استحکام ملتا ہے اور ر ادائیگی کے توازن کے خسارے کے مستقل مسئلے پر قابو پانے میں بنیادی مدد ملتی ہے۔ کسی ملک کی برآمدات مارکیٹ کے رجحانات اور معیار کے مطابق ہونی چاہئیں تاکہ مارکیٹ میں مقابلہ کیا جا سکے اور بین الاقوامی طور پر قابل قبول معیارات پر ہوں۔پاکستان کے معاملے میں، کم سرمایہ کاری اور مضبوط گھریلو طلب کی وجہ سے برآمدات میں کمی ہے۔ ان دو عوامل کی وجہ سے درآمدات برآمدات سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ بڑھتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لیے نجی سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات کی نمو بھی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستان میں معاشی مسائل کے حل تلاش کرنے کے لیے تحقیق اور پالیسی اسٹڈیز بھی اہم ہے۔پاکستان کو کم سے کم انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی ضرورت والی برآمدی خدمات اور مصنوعات پر سرمایہ کاری پر توجہ دینی چاہیے۔پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لیے عالمی منڈی میں برآمدی مسابقت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔صنعتوں کو کم قیمت سے زیادہ قیمت والی مصنوعات کی طرف جانے کے لیے ترغیب دینے کے لیے پیٹرن شفٹ کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی مصنوعات کے ساتھ بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ پھر بھی سرمایہ کاری کی کمی اور حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی منڈی میں مقابلہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں، پاکستانی حکومت کو کم ٹیرف کے ڈھانچے، لچکدار پالیسی کی تشکیل کی نمائندگی کرنی چاہیے۔پاکستان میں برآمدات کو بڑھانے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی فراہمی میں کمی ہے۔ پاکستان کا غیر سازگار سرمایہ کاری کا ماحول ملک میں سیاسی عدم استحکام سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی وجہ سے ہے۔ حالیہ برسوں میں پاکستان میں جی ڈی پی کا فیصد کافی حد تک کم ہوا ہے اور اس طرح ترقی پر منفی اثر پڑا ہے۔سرمایہ کاری کا فقدان ان بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں 10 سال کے عرصے میں نمو منفی رہی ہے۔ دیگر وجوہات میں اعلی ٹیرف کا ڈھانچہ، ترقی کے بے ترتیب رجحانات، عالمی منڈیوں میں کم رسائی، بنیادی ڈھانچے کی کمی اور تکنیکی ترقی شامل ہیں۔ مزید برآں، حکومت کی غیر معقول پالیسیوں اور صنعت کو پیش کی جانے والی پیچیدہ مراعات کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے برآمدات کیسے بڑھا سکتا ہے؟مشکل وقت اختراعی سوچ اور آئوٹ آف دی باکس حل کی ضرورت بیان کرتا ہے۔پاکستان کو کم سے کم انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کی ضرورت والی برآمدی خدمات اور مصنوعات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، سافٹ ویئر اور آئی ٹی سلوشنز کی عالمی مانگ بڑھ رہی ہے۔ مینوفیکچرنگ یونٹ قائم کرنے کے بجائے سافٹ ویئر ہائوس قائم کرنا آسان ہے۔پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ کم سے کم کوششوں اور حکومت کی مدد سے، پاکستان کا آئی ٹی سیکٹر سالانہ 1 بلین امریکی ڈالر کا حصہ ڈال سکتا ہے۔ مضمون کا حاصل بحث یہ ہے کہ پاکستان کا استحکام آئین و قانون کی حقیقی بالا دستی میں ہی پوشیدہ ہے اور اس ضرورت کو یقینی بنانے کے لئے عارضی، ناپائیدار فیصلوں اور اقدامات کے بجائے طویل المدتی اور مستحکم پالیسیاں اختیار کئے جانے کی ضرورت ہے۔یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ وہ کون سا ملک ہے جو پاکستان کو اقتصادی طور پر تباہ اور برباد کرتے ہوئے اتنا کمزور اورلاچار کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کو خطے میں اپنی تابعداری اختیار کرنے پر مجبور کر سکے۔ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ دشمن ایک طرف پاکستان کو عسکری دہشت گردی سے نقصان پہنچا رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان کو سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی طورپر تباہ کرنے کے لئے '' سیاسی دہشت گردی '' کے ہتھیار بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ہمیں اپنے مسائل خود حل کرنا ہوں گے،شخصیات یا طبقات کی مفاداتی بالادستی کے بجائے عوامی مفادات کی بالادستی کو یقینی بنانے کے اقدامات اور حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی کیونکہ عوام ہی ملک کی اصل طاقت ہیں اور عوامی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے سے پاکستان حقیقی طور پر اتنامضبوط ہو سکتا ہے کہ دشمن کی کسی بھی عسکری یا سیاسی دہشت گردی کی طرح کے منصوبوں اور عزائم کو ناکام اور نامراد کیا جا سکے۔ |