فیفا عالمی کپ 2022 نے ارجنٹینا کو آئندہ چار سالوں کے
لیےفٹبال کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔ اس سنسنی خیز فائنل کا فیصلہ
پینلٹی شوٹ آؤٹ سے کرنا پڑا اور اس میں فرانس کو شکست فاش سے دوچار کرکے 36
برس بعد اس نے پھر ایک ورلڈ کپ پر فتح کا پرچم لہرا دیا ۔ قطر کے لوسیل
سٹیڈیم کے فائنل میں ارجنٹینا نے فرانس کو دو کے مقابلے میں چار گول سے
شکست دے دی۔اس بہترین کھیل سپر سٹارلیونل میسی کا تصادم کائلیان ایمباپے کے
ساتھ تھا لیکن مؤخرالذکر کی ہیٹ ٹرک بھی فرانس کی نیاّ پار نہیں لگا سکی۔
امباپے کو ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ گول کرنے پر گولڈن بوٹ ایوارڈ دیا گیا
جبکہ ارجنٹینا کے گول کیپر ایمیلیانو مارٹینیز کو ٹورنامنٹ کا بہترین گول
کیپر قرار دیا گیا۔لیونل میسی کو ٹورنامنٹ کی بہترین کارکردگی دکھانے پر
’گولڈن بال ایوارڈ‘ سے نوازہ گیا ۔ اس اعصاب شکن میچ کی بابت انگلینڈ کے
سابق سٹرائیکر ایلن شیئریر نے کہا کہ ’یہ ایک ناقابل یقین فائنل تھا۔ میں
نے آج تک ایسا میچ نہیں دیکھا اور میرا نہیں خیال کہ میں ایسا میچ پھر کبھی
دیکھوں گا۔ یہ حیران کن تھا۔‘
اس فیفا عالمی کپ کا ارجنٹینا کے بعد دوسرا ہیرو قطر تھا۔ اس کے اس فیصلے
نے ساری دنیا کو چونکا دیا اس لیے کہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک یہ غلط
فہمی تھی کہ اس کا اہتمام عرب یا مسلمان نہیں کرسکتے ۔ انہیں یقین تھا کہ
وقت کے ساتھ قطر کو اپنی غلطی کا احساس کرکے از خود دستبردار ہوجائے گا
لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ورلڈ کپ کی تیاریاں اپنےا ٓخری مراحل میں پہنچیں تو
یوروپی ممالک کو اپنی بھول کا احساس ہوا ۔ اس کے بعد تنقید و تنقیص کا آتش
فشاں پھٹ پڑا اورطرح طرح کے اعتراضات ہونے لگے لیکن اس سے قطر کے پائے
استقلال میں جنبش نہیں آئی ۔اس نےنہایت مدلل انداز میں اپنا دفاع کیا اور
اپنی کارکردگی سےمعترضین کے دانت کھٹے کردیئے ۔ قطر نے نہ صرف عالمی معیار
سے بہتر اہتمام کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا بلکہ اس موقع کو اسلام کی
دعوت پیش کرنے کا ایک ذریعہ بھی بنادیا ۔ اس طرح وہ اسلامی دنیا کی آنکھ
کا تارہ تو بن گیا لیکن کھیل کے میدان میں اس کی ٹیم کوئی کامیابی درج نہیں
کراسکی ۔ اس کمی کو مراکش نے نہایت خوش اسلوبی پورا کیا ۔ ان دونوں نے مل
کر میدان کے اندر و باہر مسلمانوں کا دبدبہ قائم کردیا ۔
مراکش کی کامیابی صرف اس کی انفرادی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس نے فلسطین کو
ٹورنامنٹ میں لاکر بغیر کھیلے اسے بھی اس مقابلے ہیروز میں شامل کردیا۔
قومی ٹیم کے متعدد کھلاڑیوں نے قطر ورلڈ کپ 2022ء میں کینیڈا کے خلاف 2-1
سے فتح کے بعد جشن مناتے ہوئے فلسطین کا پرچم لہرا کر شائقین کو چونکا دیا۔
ان کے علاوہ "اٹلس لائنز" اور اسپانوی کلب کے کھلاڑی جواد الیامیق نے
فلسطینی جھنڈا اٹھا کر ا سٹیڈیم کے گرد چکر لگایا۔ مراکش کی قومی ٹیم کے
انتظامی عملے کے کچھ ارکان مثلاًسلیم آملاح اور عز الدین اوناحی بھی پرچم
سمیت ان کے ساتھ تھے ۔ مراکش کے پرجوش شائقین بھی نہ صرف پرچم لہرا رہے تھے
بلکہ فلسطینی ٹی شرٹ بھی زیب تن کررکھی تھی۔ یہ دوطرفہ معاملہ تھا ۔ مراکش
کےکوارٹر فائنل میں کوالیفائی کرنے سے فلسطین کے اندر بھی خوشی کی لہر دوڑ
گئی تھی ۔ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں نے مراکش کی کامیابی کے جشن میں خوشی
کااظہار کرتے ہوئے جلوس نکالے اور مغربی کنارے آتش بازی کی گئی۔ اسلامی
تحریک مزاحمت [حماس] کے ترجمان نے برادر ملک قطر میں منعقدہ فیفا ورلڈ کپ
میں مراکش کو کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے پر مبارکباد دی۔حماس کے
ترجمان حازم قاسم نے کہا کہ "عرب کھیلوں کی یہ کامیابی تعریف کی مستحق ہے،
امید ہے مراکش کی ٹیم آئندہ میچوں میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے
گی"۔افلسطینی پر چم کے ساتھ مراکش کی حمایت علامہ اقبال کے اس شعر کی تصدیق
تھی کہ ؎
نرالہ سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بناء ہمارے حصار ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
فلسطین کا یہ منفرد اعزازہوا کہ ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے سے محروم رہنے
کے باوجود اس کا پرچم وہاں لہرایا گیا۔ ٹورنامنٹ کے دوران فلسطینی عوام کے
ساتھ اظہار یکجہتی نے عملاً چار عرب ممالک کے ذریعہ اسرائیل کو تسلیم کرنے
اور تعلقات بحال کرنے اقدام کو عوامی سطح پر مسترد کردیا ۔ اسرائیل ہیوم
نامی اخبار نےلکھا کہ قطر ورلڈ کپ نے "اسرائیل کو ایک انتہائی تکلیف دہ
حقیقت سے روبرو کردیا جو ایک عرب اور مسلم ملک میں اس کے مسترد، نظرانداز،
نفرت اور عدم قبولیت کی علامت ہے۔"مذکورہ اخبار نے کھلے عام اعتراف کیا کہ
"جو بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خلیجی ممالک کے باشندوں کی اسرائیل کے ساتھ
کوئی دشمنی نہیں ہے وہ دھوکے میں ہے اور حقیقت کو مختلف انداز سے دیکھتا
ہے۔" اس طرح گویا ٹورنامنٹ کے دوران جہاں ایک طرف فلسطین ہیرو تو دوسری
جانب اسرائیل ولن بن گیا۔
اسرائیلی چینلز کے نامہ نگاروں نے اس بار بڑے جوش و خروش سے قطر کا سفر
کیا۔ کیمرے لگائے اور عربوں کی طرف سے اسرائیل کی تعریف کرنے کا انتظار
کیا، لیکن جلد ہی انہیں اپنی حقارت، غفلت اور تضحیک کا احساس ہوگیا۔ اخبار
ہیوم کے مطابق بہت سے عربوں نے کہا کہ "اسرائیل جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ صرف
فلسطین ہے۔ یہ بات ان لوگوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے جو سمجھتے ہیں
کہ امن دسترس میں ہے اور عرب ممالک کے ساتھ معمول کے معاہدے صرف وقت کی بات
ہے"۔اخبار نے زور دے کر کہا کہ "اسرائیل کے ساتھ عرب باشندوں کا رویہ 70
سالوں سے جاری دشمنی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ کہ مسئلے کی جڑ ابھی تک
موجود ہے۔"
اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والوں میں مراکش بھی شامل ہے مگر مراکش
کمیشن فار فرنٹنگ نارملائزیشن کے سربراہ احمد ویحمان مراکشی حکومت کی طرف
سے نام نہاد مسودہ امن کی شدید مذمت کرتے ہوے اس کو مراکش کے قومی وقار کی
توہین قرار دیتے ہیں ۔ ان کے مطابق یہ فلسطینی عوام کے تئیں مراکش کی ذمہ
داریوں اور ان کی منصفانہ جدوجہد کے لیے ایک دھچکا ہے۔ یہ معاہدہ ایک
ایسےوقت میں کیا گیا ہے جب قابض ریاست فلسطینیوں کے خلاف ننگا ناچ کررہی
ہے۔ فوج اور نسل پرست پولیس نے فلسطینی عوام کے خلاف پے درپے قتل عام کا
ارتکاب کیا ہے۔ویحمان نے اس معاہدے کو صدر مراکش پر استعماری طاقتوں اور
صہیونی لابی کے دباؤ کا نتیجہ اور عوام پر صیہونی دراندازی اور تسلط کو
معمول پر لانے کے لیےکیا جانے والا اقدام بتایا ۔یہ ایک انفرادی رائے نہیں
بلکہ عام خیال ہے۔
عبرانی چینل 12 کے نامہ نگار اوہاد حمو نے اس کا اعتراف یوں کیا کہ "عرب
عوام کی اکثریت قطر میں ہماری موجودگی کو پسند نہیں کرتی حالانکہ ہمارے
اسرائیل کے چار عرب ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم ہیں ۔حمود کے بیان
میں یہ اشارہ ہے کہ عرب عوام نے "اسرائیل" کو "ناقابل قبول" ہونے کا واضح
پیغام دیا ہے۔ عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے تو صفحہ اول پر ایک وسیع
سرخی لگائی : "نفرت کا ورلڈ کپ"۔ قطر میں موجود اخبار کے نامہ نگار نے کہا
کہ "ہم خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہم نفرت میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں
۔ ہر طرف سے دشمنی اور ناپسندیدگی میں گھرے ہوئے ہیں۔" نامہ نگار نے مزید
کہا کہ "ایک قطری کو جب معلوم ہوا کہ ہم اسرائیلی ہیں تو وہ بولا تمہارا
کوئی استقبال نہیں پرندے کی تیزی کے ساتھ یہاں سے نکل جاؤ‘‘۔
اخبار یدیعوت احرونوت کےمطابق "فلسطینی، ایرانی، قطری، مراکش، اردنی، شامی
اور مصری اس عالمی کپ میں ہمارے خلاف دشمنی کا اظہار کرتے ہیں۔"اس زبردست
ناپسندیدگی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ " ہم ان کے بھائیوں کو مار رہے ہیں۔"
شائقین کا سوال تھا کہ اسرائیلی کیوں چاہتاہے کہ ان کی موجودگی کو قبول کیا
جائے جبکہ اس نے ہماری سرزمین کی بے حرمتی کی ہے، ہمارے گھروں کی خلاف ورزی
کی ہے اور ہر روز ہمارے بھائیوں کو قتل کرتا ہے؟"المیادین ٹی وی نے متعدد
نوجوانوں کو اسٹیڈیم کے سامنے فلسطین کا جھنڈا اٹھا کر انصاف کا مطالبہ
کرتے دکھایا۔ اس حمایت کی وجہ یہ بتائی گئی کہ فلسطینی مظلوم ہیں۔ ان کی
آواز پوری دنیا تک پہنچانی ہے۔اس ورلڈ کپ نے یہ حقیقت ظاہر کردی کہ عرب
اسرائیل معاہدوں کے باوجود عرب عوام اسرائیل سے نفرت کرتے ہیں اور یہ اس کے
اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ یہ بھی ایک حسن اتفاق ہے کہ یوم انتفاضہ کی
سالگرہ کے موقع پر مراکش کی ٹیم نے پرتگال کو ہرا کر سیمی فائنل میں قدم
رکھا۔ اس طرح موجودہ ورلڈ کیمپ نےارجنٹینا، قطر ، مراکش کے ساتھ فلسطین کو
بھی ہیرو بنادیا۔ ارشادِ خداوندی ہے:’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے
چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے،
ذلیل کر دے بھلائی تیرے اختیار میں ہے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے‘۔
|