خالی خزانہ` حلقہ وائزمقابلے، فائدہ کس کا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے اپنے ممبران اسمبلی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے شروع کئے جانیوالے حلقہ وائز مقابلوں کا فائدہ جتنا ممبران اسمبلی کو پہنچا ہے اتنا ہی اسی ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے بیورو کریٹس کو بھی ہوا.ہاں جن کیلئے ہوا انہیں فائدہ نہیں پہنچایا گیا.یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے بیان کرنے کی کسی میں ہمت نہیں نہ ہی کوئی ممبران اسمبلی اور بیورو کریٹس کو یہ لکھ کر یا بتانے کی ہمت رکھتا ہے کیونکہ خدا کی زمین پر اپنے آپ کو خدا سمجھنے والوں کے سامنے بات کرنا اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنا ہے. صوبے کی بھوکی ننگی عوام پر کروڑوں روپے کے اس کھیلوں کے حلقہ وائز مقابلوں میں صرف تین کھیلوں کے مقابلے کروائے گئے، کھلاڑی کتنے نکلیں گے، کتنے نکلے اس کا ریکارڈ بھی کسی کے پاس نہیں، کرکٹ میں ٹینس بال پر کھیلنے والے انتیس سال کے ان نوجوانوں سے کتنے کرکٹر نکلیں گے یہ اس شعبے سے وابستہ کوئی بھی شخص جان سکتا ہے.ہاں یہ کہہ کر سب کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہیں کہ یہ منصوبہ وزیر کھیل کی برین چائلڈہے، اور اسی کے کہنے پر یہ منصوبہ شروع کیا گیا اسی وجہ سے اس ڈیپارٹمنٹ کے بیورو کریٹس اور افسران اس کے ذمہ دار نہیں بس وہ اپنی ڈیوٹی پوری کررہے ہیں.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بنیادی ذمہ داری نرسری سطح سے کھیلوں کا فروغ اور نئے کھلاڑیوں کو تیار کرنا ہے، اب حلقہ وائز مقابلوں میں کتنے نرسری کے کھلاڑی نکلیں گے یہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ کھانے والے افسران اور وزیر کھیل کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، انتیس سال کی عمر تک کے کھلاڑی دنیا کے کس کونے میں ہونیوالے مقابلوں میں حصہ لیں گے.کیونکہ دنیا بھر میں تو کھلاڑی بارہ سال کی عمر سے شروع کرکے بیس سال تک قومی اور بین الاقوامی دنیا تک نکلنے کیلئے کوشاں ہوتے ہیں اور پھر ان کا یہ سفر تیس سال تک رہتا ہے کچھ کھلاڑی پھر بھی آگے جاتے ہیں لیکن دنیا کے انوکھے ملک پاکستان کے انوکھے صوبے خیبر پختونخواہ میں انوکھے کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، وزیر کھیل اگر کھیلوں کے فروغ کے خواہشمند تھے تو انہیں کیوں نہیں بتایا گیا کہ اس صوبے میں پینتیس سے زائد کھیل کھیلے جاتے ہیں صرف تین کھیلوں پر ہی ان کی نظر کرم ہے، فٹ بال، والی بال، کرکٹ اور لڑکیوں کیلئے بیڈمنٹن،یہ وہ سوالیہ نشان ہے جو دیگرکھیلوں سے وابستہ کھلاڑی بھی جاننا چاہتے ہیں.کیونکہ وزیر تو سب کھیلوں کا ہوتا ہے صرف مخصوص کھیلوں کا نہیں پھر یہ اتنا بڑا تفریق کیوں.
صوبائی حکومت کی آخری سسکیوں یعنی آخری لمحوں میں اپنے ممبران اسمبلی کو خوش رکھنے کی اس پالیسی پر کروڑوں روپے تو لگ گئے لیکن پھراس پر عملدرآمد بھی اس طرح نہیں کیا گیا جس طرح کیا جانا چاہئیے تھا صوبے میں سات ریجن ہیں لیکن اس انوکھے مقابلوں کیلئے ریجن کے مردوں کے مقابلے دس ریجن بنا کر مقابلے کروائے گئے، کیونکہ مقصد ممبران اسمبلی کو خوش کرنا تھا، دور دراز کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو الاؤنس کی مد میں چار سو روپے دئیے گئے جبکہ پشاور میں رہنے والے کھلاڑیوں کو چھ سو روپے دئیے گئے شائد پشاور کے کھلاڑیوں میں سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں، تبھی انہیں اس طرح ٹریٹ کیا گیا، کبھی کسی محکمے نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ جتنے پیسے لگائے گئے کیا واقعی اس طرح خرچ بھی ہوئے.
نیب خیبر پختونخواہ نے تو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کیساتھ آگاہی کیلئے معاہدہ کیا ہے جب بھی کوئی بڑا ایونٹ ہوتا ہے تو ان کے ڈائریکٹر آکر بڑی تقریر کرلیتے ہیں ایسے میں ان سے یہ توقع رکھنا کہ تحقیقات کریں گے یا اس پر سوچیں گے بڑی سوچنے والی بات ہے. رہی انٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ و دیگر ادارے، تو اللہ جانے ان کی رپورٹیں کہا ں جاتی ہیں.شائد حکومت تبدیل ہوتے ہی فائلیں کھل جائیں.
حلقہ وائز مردوں کے مقابلوں میں کھلاڑیوں کے ٹرائلز کئے گئے، کیسے کئے گئے، انہیں کٹس نہیں ملا، فٹ بال میچز میں من پسند ٹیموں کو جتوایا گیا، چلیں پھر بھی بات بنتی ہے لیکن خواتین ممبران اسمبلی کیلئے الگ ہی منصوبہ بندی کی گئی، پچیس خواتین ممبران اسمبلی کی ٹیمیں تھی، انہیں کس طرح تقسیم کیا گیا، ان کے مقابلے کس طرح کروائے گئے، بعض خواتین ممبران اسمبلی کے مطابق انہیں آخری وقت میں بتایا گیا تھا اسی وجہ سے انکی ٹیمیں نہیں بن سکی.دوسری طرف تبدیلی والی سرکار حکومت چھوڑ رہی ہے نے بھی بہت ساری ٹیموں میں میدان میں آنے سے روک دیا.یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ بتانے سے گریزاں ہیں، جوخاتون ڈائریکٹر ان معاملات کی دیکھ بھال کررہی ہیں وہ یہی کہہ رہی ہیں کہ ڈیرہ میں ہونیوالے مقابلوں پر بارہ لاکھ روپے لگ گئے، مردان ریجن میں ہونیوالوں مقابلوں پر بھی بارہ لاکھ روپے لگے، اسی طرح ایبٹ آباد اور پشاور میں بھی بارہ بارہ لاکھ روپے لگ گئے، لیکن یہ معلومات ابھی تک کسی کو نہیں دی گئی کہ یہ اڑتالیس لاکھ روپے چار دن میں روپے کس طرح لگے..
چلیں حلقہ وائز مردوں کے مقابلوں پر اگر لگ بھی گئے تو اس کیلئے ٹرائلز بھی ہوئے تھے متعدد دن مقابلے جاری رہے، ٹیمیں بھی آئی تھی کیسی ٹیمیں آئی تھی، کن کن حلقوں کے کھلاڑی کس حلقوں میں کھلائے گئے، اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں لیکن خواتین مقابلوں کو جس طرح پردے میں رکھ کر کرایا گیا اس پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں، کیونکہ خواتین حلقہ وائز مقابلے صرف دو کھیلوں کے کروائے گئے، اور ایبٹ آباد، ڈیرہ، مردان اور پشاور میں ایک ہی دن میں یہ مقابلے کروا ئے گئے، جس میں افتتاح و و اختتام ایک ہی دن ہوا یہ الگ بات کہ بعض ٹھیکیدار اسے اخبارات کے ذریعے دودن کا ایونٹ ظاہر کرینگے کیونکہ سرکاری ٹھیکیدار کا کام تو سرکار کو خوش کرنا ہوتا ہے اڑتالیس لاکھ روپے صرف خواتین حلقہ وائز مقابلوں کے چار دنوں پر پر لگ گئے، کیسے لگ گئے، کیونکہ ٹیمیں تو بہت کم آئی تھی ٹرائلز بھی نہیں ہوئے تھے. میڈیا کو ظاہر نہیں کیاگیا، کیوں یہ وجہ بھی جاننے کی ضرورت ہے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو جواب ملا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں حالات خراب تھے اسی بناء پر میڈیا کو نہیں بتایا گیا، حالانکہ وہاں پر لوکل براڈ کاسٹ میڈیا کو یہ کہہ کر روک دیا گیا تھا کہ پشاور سے ٹیمیں کوریج کیلئے آئی ہیں او ر وہ دو لاکھ روپے لیکر گئے ہیں.چلیں ڈیرہ میں حالات خراب تھے تو پھر ڈیرہ میں اسے کرانے کی کیا تک تھی، کہیں ڈیرہ کی لوکل میڈیا کی ان باتوں میں حقیقت تو نہیں کہ سکولوں کے بچیوں کو ان مقابلوں میں کھیلنے کیلئے لایا گیا، اسی طرح ایبٹ آباد، مردان اور پشاور میں وہی لوگ کوریج کیلئے حاضر تھے جوسرکار کی "غل "کو "گل " بنانے کے ماہر ہیں
لیکن سب سے حیران کن امر تو یہی ہے کہ حلقہ وائز مردوں کے مقابلوں میں شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم میں مرد کھلاڑیوں کو یہ کہہ کر مقابلے سے روک دیا گیا تھا کہ بغیر کٹ کے کھیلنا منع ہے لیکن لڑکیوں کے اس قانون پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، کیا وجہ ہے، اگر برابری کرنی ہے تو پھر برابری بھی پوری تو کی جائے، اگر کھلاڑی نکالنے ہیں تو پھر کھلاڑی نکالیں اس میں مرد و خاتون کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی. لیکن نہ جانے کیوں اتنی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے، کیونکہ ایک طرف صوبائی حکومت " خزانہ خالی ہے "کا رونا روتی ہے اور دوسری طرف " ممبران اسمبلی "کو خوش کرنے کیلئے کروڑوں روپے لگا رہی ہیں جس کے ثمرات بھی ملنے والے نہیں،حلقہ وائز مقابلوں میں ان تین کھیلوں کرکٹ، والی بال، فٹ بال اور لڑکیوں کے بیڈمنٹن مقابلوں سے کتنے کھلاڑی نکلے ہیں اور نکلیں گے اس پرابھی تک خاموشی ہیں.
|